اخلاق سے مراد نیک اعمال اچھی عادتیں اچھا سلوک تہذیب اور شائستگی ہے - ایمان کے بعد دین کا اہم ترین تقاضہ حسنِ اخلاق ہے-آج کا پاکستان اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے- اس بحران نے ریاست کے ہر ادارے اور شعبے کو متاثر کر رکھا ہے- اگر حالات کا غیرجانبداری اور نیک نیتی سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان کا سب سے بڑا بحران اخلاقی بحران ہی ہے- بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بے مثال اخلاقی رول ماڈل پیش کیا تھا- یہ ان کی اخلاقی قوت ہی تھی جس کی بنا پر وہ انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ مقابلہ کر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے - اگر قائداعظم اخلاق اور کردار کے حوالے سے مضبوط اور مستحکم نہ ہوتے تو پاکستان کا وجود ممکن نہیں ہوسکتا تھا - قائداعظم جب لندن میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو انہوں نے کرسمس پارٹی میں شرکت کی، ایک انگریز خاتون نے ان کو گلے ملنے کی خواہش کی مگر قائد اعظم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اخلاقی اقدار ان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتیں-قائد اعظم نے کرسمس پارٹی میں شرکت کرکے مذہبی رواداری کا مظاہرہ تو کیا مگر مذہب اور ثقافت کی حدود کو نہ توڑا- قائداعظم نے لندن میں شیکسپئر تھیٹر کمپنی میں سٹیج ڈرامے میں ڈائیلاگ بولنے کی پارٹ ٹائم جاب حاصل کرلی جسے ان کے والد نے پسند نہ کیا۔ قائداعظم نے اپنے والد کی خوشنودی کے لئے یہ جاب چھوڑ دی- جب انہوں نے لندن سے واپسی پر وکالت شروع کی تو ایک کلائنٹ نے ان کو پندرہ سو روپے فیس دی قائداعظم کا خیال تھا کہ وہ تین دن میں یہ مقدمہ مکمل کرلیں گے مگر مقدمہ دو دن کے اندر ہی مکمل ہو گیا تو قائداعظم نے اپنے کلائنٹ کو پانچ سو روپے واپس کر دیے- قائداعظم کے بارے میں ایک گواہی بھی ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے وعدہ کیا ہو اوراسے پورا نہ کیا ہو، انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہو یا انہوں نے کبھی امانت میں خیانت کی ہو یقیناً وہ مثالی اخلاقی رول ماڈل تھے-
قائداعظم کے سابق سیکرٹری کے ایچ خورشید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن وہ پبلک ریلی سے رات کے بارہ بجے اپنے گھر پر پہنچے تو قائد اعظم نے اپنے سیکریٹری اور فاطمہ جناح سے کہا کہ جو پارٹی فنڈ اکٹھا ہوا ہے اس کی گنتی کی جائے اور اسے رجسٹر میں نوٹ کیا جائے - جب تک گنتی مکمل نہ ہوئی قائداعظم نے سونے سے انکار کر دیا- قائد اعظم پارٹی فنڈ کو بھی عوام کی امانت سمجھتے تھے- ایک مسلمان سرکاری ملازم نے قائداعظم کو ایک خفیہ فائل دی جس میں کانگرس کی مسلم لیگ کے خلاف حساس منصوبہ بندی کی رپورٹ شامل تھی- قائد اعظم نے سرکاری ملازم سے کہا کہ آپ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے آپ کو یہ فائل اس طرح دفتر سے باہر نہیں لانی چاہیے تھی - یہ مثالی اخلاق کی ایک اعلی مثال تھی- 1946 کے انتخابات میں اے ایچ اصفہانی نے قائد اعظم سے کہا کہ ان کا مخالف امیدوار کہتا ہے کہ مجھے ساڑھے تین سو روپے دے دو تو میں آپ کے حق میں بیٹھ جاتا ہوں - قائداعظم نے ان کو منع کیا اور کہا کہ یہ غیر اخلاقی بات ہوگی۔ تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم مقابلہ کرو اور انتخاب جیتو تاکہ عوام میں تمہاری عزت اور وقار برقرار رہے-سندھ کے لیڈروں نے قائد اعظم سے پارٹی فنڈ کا مطالبہ کیا تاکہ کچھ لوگوں کو پیسے دے کر ان کے ووٹ خریدے جا سکیں - قائد اعظم نے سختی سے منع کیا اور کہا کہ میں ایک روپیہ بھی ووٹ کے لئے نہیں دوں گا اور انتخاب ہارنا پسند کروں گا - قائداعظم کو پیشکش کی گئی کہ وہ اگر پاکستان کا مطالبہ مؤخر کردیں تو ان کو متحدہ ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنا دیا جائے گا قائد اعظم نے کہا کہ میں قوم کا سودا کیسے کر سکتا ہوں-
قائداعظم ہر قسم کی بدعنوانی رشوت اور کرپشن کے سخت خلاف تھے اور خود بھی دیانت کے اعلی معیار پر فائز تھے-قائداعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا-
’’Corruption and bribery are like poison and a horrible disease which need to be put down with iron hand‘‘
ترجمہ " کرپشن اور رشوت ستانی زہر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک مہلک بیماری ہیں جس سے آہنی ہاتھوں کیساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے"
انتہائی اطمینان کی بات ہے کہ پاکستان کے نئے چیف جسٹس محترم گلزاراحمد نے کرپشن کے خاتمے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا ہے- حقیقت یہ ہے کہ آج کرپشن ہی پاکستان کی سب سے بڑی دشمن ہے جب تک حکومت کے مختلف شعبوں سے اس زہر کو ختم نہیں کیا جائے گا پاکستان کسی صورت سیاسی سماجی اور معاشی طور پر صحت مند نہیں ہو سکے گا - قیام پاکستان کے بعدجب قومی خزانہ خالی ہوگیا اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے نہ رہے تو انگریزوں کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ عوام کو یہ نہ بتایا جائے کہ خزانہ خالی ہو گیا ہے - قائد اعظم نے کہا پاکستان کے مالکوں عوام سے سچ کو نہ چھپاؤ اور ان کو اعتماد میں لو- جب عوام کو بتایا گیا کہ قومی خزانہ خالی ہوگیا ہے تو انہوں نے کروڑوں روپے قومی خزانے میں جمع کرا دیئے۔ حکومت طاقت سے نہیں بلکہ سچ سے ہی چلا کرتی ہے-
قائداعظم جب زیارت میں شدید بیمار تھے تو ان کے پرانے باورچی کولائل پور(موجودہ فیصل آباد) سے بلایا گیا جس کے کھانے وہ رغبت سے کھاتے تھے- قائداعظم کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ باورچیکے تمام اخراجات ان کے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کئے جائیں- ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے قائد اعظم سے کہا کہ وہ ان کے لیے ایک گرم اونی پاجامہ خریدنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو سردی سے بچایا جاسکے- قائد اعظم نے کہا ڈاکٹرجب بھی قومی خزانے کا کوئی پیسہ خرچ کرو تو اچھی طرح سوچو کہ یہ ضروری ہے یا نہیں ہے- قائداعظم مرد مومن تھے انہوں نے اخلاقی رول ماڈل پیش کرتے ہوئے اپنی محنت کی تمام کمائی اور جائیداد تعلیمی اور فلاحی اداروں کے لئے وقف کر دی - انہوں نے پاکستان کے لیے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا - آج بھی پاکستان کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو اخلاقی طور پر رول ماڈل بن سکے تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں-
علامہ اقبال نے قائداعظم کے بارے میں کہا تھا کہ ان کو نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کرپٹ کرسکتا ہے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
علامہ اقبال کو قائداعظم کی صورت میں وہ مرد مجاہد میسر آگیا جو اخلاق اور کردار کا بہترین رول ماڈل تھا- قائداعظم کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا-
نگاہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024