حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ کے درمیان ذہنی مطابقت تو مسلم لیگ کی بدولت بڑے عرصہ سے قائم تھی اور کچھ وقت کیلئے سائمن کمیشن کی آمد اور جداگانہ طرز انتخاب کے اصولی اختلاف کی وجہ سے وقتی سیاسی رنجش کے باوجود دونوں عظیم راہنما کبھی ذاتی عناد کا شکار نہ ہوئے۔ یہی وجہ ان دونوں کی شخصی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اُس پر آشوب دو رمیں دونوں کا وجود مسلمانان برصغیر کیلئے رب ذو الجلال کا بہت بڑا احسان تھا۔
نہرو رپورٹ کی بالجبر منظوری اور مسلمانوں کے درست تعاون کو جھٹک کر کانگرسی راہنماﺅں نے جس کو تاہ اندیشی کا ثبوت دیا اور بقول قائد اعظمؒ ” آج سے ہمارے راستے جدا جدا ہیں“ بعض معتدل ہندو راہنماﺅں نے مستقبل کے علیحدگی کے خطرہ کو بھانپ کر اور قائد اعظم کے جذبہءاستقامت کے پیش نظر،کانگرسی قیادت کو مشور دیا تھا کہ ” جناح“ جو مانگتے ہیں انہیں دے کر راضی کرلو، ورنہ وقت ہاتھ سے نکل جائیگا، قائد اعظم نے ہندوستان کے معروضی حالات کے پیش نظر اسوقت فیصلہ کر لیا تھا کہ دونوں قوموں میں علیحدگی کے سوا سیاسی و آئینی مسئلہ کا کوئی اور حل نہیں۔
برطانوی حکومت نے 1928-29 میں موجود آئینی مسائل کے حل کیلئے 1929-32، انگلستان میں گول میز کانفرنسز طلب کیں جن میں تمام جماعتوں کے راہنما شریک ہونا تھے۔ لہذا قائداعظمؒ نے انگلستان روانگی سے قبل ہی، اپنے فکری ہم نشیں حضرت علامہ اقبال کو مسلم لیگ کے ہونیوالے آئندہ اجلاس کی صدارت کیلئے فوری نامزد فرمایا تا کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں مسلمانوں کے اہم مطالبہ ”جداگانہ وطن“ کی باز گشت بین الاقوامی اور عالمی سطح پر سنائی دے۔
قائد اعظم کو علامہ اقبال کی اس منفرد اور جداگانہ سوچ کا پہلے سے ہی علم تھا کیونکہ علامہ اقبال یہ تجویز 1928 میں نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کر چکے تھے۔ جسے متعصب ہندوﺅں نے حیلے بہانوں سے مسترد کر دیا تھا لہٰذا دونوں عظیم راہنماﺅں کی فکری ہم آہنگی نے ”الہ آباد کے تاریخی اجلاس 1930“ میں جداگانہ وطن کے حصول کا دھماکہ خیز مطالبہ دنیا کو حیران کر گیا۔ وہ دھماکہ عین اسوقت ہوا جب انگلستان میں تمام اہم راہنما آئینی مسائل کے حل لئے جمع تھے اور تمام دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مسلمان نہ صرف جداگانہ قوم ہیں بلکہ ان کے وجود اور فکر کی آبیاری الگ وطن سے ہی ہے۔ بعد میں علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شر کت کیلئے انگلستان تشریف لے گئے اور قائداعظم سے اس اہم مطالبہ پر فکر انگیز”جداگانہ اسلامی ریاست“ کے تصور پر گفت و شنید ہوئی۔ اس کے بعد کئی مواقع پر علامہ اقبال نے اپنے تصور کے حوالہ سے قائد محترم کو کئی خطوط بھی لکھے جن سے اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ دونوں عظیم راہنماﺅں نے درماندہ مسلم قوم کے مستقبل کو درخشاں بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ 31جون 1939 کو آپ نے قائداعظمؒ کے نام ایک خط میں لکھا۔لارڈ لو تھیان نے مجھے کہا تھا”کہ ہندوستان کے مصائب کا حل صرف تمہاری سکیم کے ذریعہ ممکن ہے لیکن اسکے حصول کیلئے شاید25سال کا عرصہ درکار ہو“
28 مئی 1937 کو آپ نے قائد اعظم کے نام مرسلہ خط میں تحریر کیا:
” عرصہ دراز تک اسلامی قانون کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو کم از کم معاشرے کے ہر فرد کو رزق کی ضمانت مل سکتی ہے لیکن مسلمانوں کو ایک یا ایک سے زیادہ آزاد مملکتوں کے بغیر اسلامی اقدار کا نفاذ اور ان کا ارتقاءناممکن ہے“۔ان مقاصد کے حصول کیلئے برصغیر کی ازسرنو نو تقسیم اور اکثریتی علاقوں میں آزاد مملکت یا مملکتوں کا قیام از بس ضروری ہے۔
دونوں راہنماﺅں میں ہونے والی خط و کتاب نہایت تاریخی اہمیت کی حامل تھی ان خطوط کے حوالہ سے قائد اعظم نے فرمایا تھا۔
” یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ خصوصاً جن میں اقبال نے مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کو موضوع بحث بنایا ہے۔ انکے خیالات مجموعی طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور برصغیر کو جو آئینی مسائل در پیش تھے انکے تفصیلی جائزے اور گہرے مطالعے سے میں بھی سر اقبال جیسے نتائج پر پہنچا۔یہی تصورات بعد ازاں ایک وقت پر آکر مسلمانان بر صغیر کے متفقہ عزم اور امنگ کی شکل میں ظاہر ہوئے“۔
تحریک قیام پاکستان کے حقائق کے پیش نظر یہ بات بلا کم وکاست کہی جا سکتی ہے کہ قائداعظم اور حکیم الامت کے درمیان1929 میں ہی اس بارے جو فکری یگانگت موجود تھی کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی مشکلات کا واحد حل انکے علیحدہ وطن کے قیام میں مضمر ہے اس موافقت اور ہم آہنگی کا عملی اظہار 1930 میں ہوا جب علامہ اقبال نے الہ آباد کے مقام پر اپنا معروف خطبہ پیش کیا۔
23 مارچ1940 کی قرارداد کی منظوری کے بعد،تاریخی اجتماع میں قائداعظم ؒ بڑے پُر عزم انداز میں اعتراف کے طور پر فرمایا:
”آج اقبال ہم میں موجود نہیں ہیں اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر کتنا خوش ہوتے کہ ہم نے وہ سب کچھ کر دیا ہے جو وہ چاہتے تھے“
بلا شبہ قائد اعظم علامہ اقبال کا بے حد احترام کرتے تھے 2 مارچ 1941 کو یوم اقبال کی ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
”اقبال دور حاضر میں اسلام کی تاریخ تھے۔ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی اور شخص نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ میں نے ان کی قیادت میں بحثیت ایک سپاہی کے کام کیا ہے“۔
(ہفت روزہ حمایت السلام4 مارچ1941)
بقول حضرت واصف علی واصفؒ،علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں صاحبِ حال تھے“
علامہ اقبال نے بھی 1937 میں پنڈت نہرو کو میاں افتخار الدین کی موجودگی میں یہ کہا تھا ”I am proud to be a soldier of Jinnah“
”مجھے جناح کے ایک سپاہی ہونے پر فخر ہے“
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024