بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کو مبارکباد، انہیں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ(آرڈر آف زید) سے نوازا گیا ہے۔ اس ایوارڈ پر نریندر مودی کو جتنی مبارکباد دی جائے وہ کم ہے۔ یقینا وہ اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ انہیں یہ اعزاز یقینا امارات کی خدمت کے صلے میں یا بہترین تعلقات کے صلے میں ملا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھارت کے دہشت گرد، قصاب اور مسلمانوں کے جانی دشمن کو آرڈر آف زید سے نوازا جانا امت مسلمہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنے ملک میں مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی، گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو ہندو دشمنی کی بھینٹ چڑھایا ایسا تنگ نظر اور تعصب کہ پانچ اگست سے آج تک کشمیریوں کا کھانا پینا، روٹی، سکول، کالج،انٹرنیٹ ، رابطے کے تمام ذرائع، معلومات کے تمام ذرائع بند کیے ہوئے ہے، ایسا جمہوریت پسند کہ اپنے ہی خوشامدیوں کو بھی نظر بند کیے بیٹھا ہے، ایس تعصب پسند کہ مساجد کو بھی بند کر رہا ہے، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی مکمل تیاری کیے بیٹھا ہے۔ نہتے کشمیریوں پر لاکھوں کی فوج تعینات کر رکھی ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں، بیماروں کو دوائی نہیں مل رہی، بھوکوں کو کھانا نہیں مل رہا، والدین اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے ہیں، جیلیں کم پڑ گئیں، پولیس اسٹیشنز کے باہر اپنے پیاروں کے بارے پوچھنے والوں کا رش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، ہر طرف خوف و ہراس ہے۔ یہ حالات پیدا کرنے والے کو اعلی ترین سول ایوارڈ سے بڑھ کر بھی کچھ دیا جاتا تو وہ کم تھا۔ نریندرامودی کی حکومت میں برداشت، تحمل، میرٹ، انصاف، رواداری کہیں کھو گئی ہے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس قصاب کو ملنے والے اعلی ترین سول ایوارڈ کے ملبے تلے مسلم امہ بھی دفن ہو گئی ہے۔ ان حالات میں امن کی بات کون کرے گا جب نام نہاد جمہوریت کے دعویدار ملک کے وزیراعظم کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے لاکھوں مظلوم مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہوں اور ایک مسلم ملک اس تصدیق شدہ دہشت گرد کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ عطا کر دیا جائے تو ناصرف شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں بلکہ نفرت کے جذبات میں
اضافہ ہوتا ہے۔ نریندرمودی اپنے ملک کے لیے یہ ایوارڈ تو لے اڑے لیکن تاریخ میں پھر بھی انہیں ایک قصائی کے نام سے ہی یاد کھا جائے گا۔ یہ سول ایوارڈ انکے مسلم دشمن خیالات کو ختم نہیں کر سکتا، یہ آرڈر آف زید ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا، یہ اعلیٰ ترین سول اعزاز ان کی مسلمانوں کی دشمنی کو دوستی میں نہیں بدل سکتا۔ یہ سول اعزاز امت مسلمہ کے اتحاد، اتفاق پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات میں اس قصائی کو اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا جا رہا ہے۔
قارئین کرام ہمیں اب خیالی پلاؤ بنانے کی روش ترک کر دینی چاہیے، ہمیں زمین پر آ جانا چاہیے، ہمیں
سمجھ لینا چاہیے کہ ملکوں کے مابین تعلقات مفادات کی بنا پر ہوتے ہیں اور کسی بھی سربراہ مملکت کی یہی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے فائدے کے لیے کیا کچھ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں بھائی چارہ، اخوت، اتحاد ، اتفاق اور رواداری سب بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں صرف مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اور مسلم ممالک میں تو بالخصوص مفادات کو سب سے زیادہ اہمیت ملتی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو تمام تر مخالفت کے باوجود اعلیٰ ترین سول ایوارڈ جاری کرنا اس کی واضح مثال ہے۔ اس مشق کے کئی اہم پہلو ہیں۔ بالخصوص پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ ہمیں غیر ضروری طور پر کسی بھی ملک سے امیدیں لگانے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا، ہمیں ہر قسم کے حالات میں غیر جانبدار رہ کر آگے بڑھنا ہو گا، ہمیں ہر وقت خود کو مظلوم اور ضرورت مند بنا کر پیش کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی، ہمیں لوگوں کی لڑائیوں میں فریق بننے کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دینا ہو گی، ہمیں کسی بھی صورت کسی بھی لڑائی میں کسی بھی طاقتور یا کمزور کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ہر وقت برادر اسلامی ملک، بردار اسلامی ملک کی رٹ لگانے کی عادت ترک کرنا ہو گی۔ اگر متحدہ عرب امارات مظلوم کشمیریوں کا ساتھ نہیں دینا چاہتے نہ دے ہمیں بھی ان کی غیر ضروری حمایت کو چھوڑنا ہو گا۔
ہمیں خود کو اس قابل بنانا چاہیے کہ پیسوں کے لیے ہم کسی کی جنگ میں کودنے کے بجائے ملک کو درپیش خطرات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اپنے مفادات کا تعین کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہم اتنے ظالم ہو چکے ہیں کہ خود ایک دوسرے کی گردن کاٹ رہے ہیں اور مدد کی امید برادر اسلامی ملک سے لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ جو ہر روز ہمارے اردگرد لٹتے ہیں، قتل ہوتے ہیں، ظلم کا شکار ہوتے ہیں کیا یہ ہمارے برادر نہیں ہیں۔ ہمیں ان پر ظلم ڈھاتے ہوئے، ان کے حقوق غصب کرتے ہوئے برادر اسلامی کیوں یاد نہیں آتے۔ جب ہم مختلف مسلم ملکوں کے خلاف کسی عالمی اتحاد کا حصہ بن کر مسلمان بھائیوں کے قتل عام کا حصہ بنتے ہیں اس وقت ہمیں برادر اسلامی کا رشتہ کیوں یاد نہیں آتا۔ ہمیں اپنے مسائل سلجھانے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ کشمیر کے مسئلے پر ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ ملکوں کے تعلقات مفادات کے محتاج ہوتے ہیں یا تو ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اپنی لڑائی خود لڑ سکیں، اپنے اخراجات کا وزن خود اٹھا سکیں، قرضوں کے بوجھ سے نکل سکیں اور خود مختاری کی زندگی شروع کریں لیکن اس کے لیے سب کو کام کرنا ہو گا۔ ایمان داری اور وطن کی محبت کے جذبے سے سر شار ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مضبوط اور خود مختار ہوتے تو اب تک اپنا فیصلہ کر چکے ہوتے بلکہ کوئی ایکشن بھی کر چکے ہوتے۔
اپنی اہمیت بنانے کے لیے ہمیں خیالی دنیا سے باہر نکلنا ہو گا۔ عملی زندگی میں مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کام کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے اپنے طرز زندگی، طرز فکر نہ بدلے تو مودی کو ایوارڈ ملتے رہیں گے اور ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔ ہمیں احتجاج کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ جب تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے، قرض اور امداد کے لالچ سے باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک کوئی سنجیدہ نہیں لے گا۔مودی کا اعزاز ایک سبق ہے، ایک موقع ہے خود کو بدل لیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38