پاکستان کی کاوشیں درست سمت‘ کوئی خلا باقی نہ چھوڑا جائے
بھارت جھوٹا اپریشن کرسکتا ہے‘ دنیا خبردار رہے‘ عمران خان کا خدشہ ۔مودی جہاں بھی جائینگے‘ کشمیر پر جوابدہ ہونا پڑیگا‘ وائٹ ہائوس
وزیر اعظم عمران خان نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو فون کرکے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظالمانہ اقدامات سے آگاہ کیا اور زور دیا کہ عالمی برادری فوری طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ متنازع حیثیت کے خاتمے اور جغرافیائی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کیلئے کئے گئے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات پر موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سمیت لاک ڈاون، ہر قسم کے مواصلاتی رابطوں کو منقطع کرنے اور غذائی اجناس اور دوائوں کی کمی جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔ جرمن چانسلر نے کہا کہ ‘جرمنی اس صورتحال کا قریب جائزہ لے رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور دہلی کشیدگی کم اور مسائل پرامن طور پر حل کریں۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کیلئے جھوٹا اپریشن کر سکتا ہے دنیا خبر دار رہے ۔ مزید برآں وفاقی حکومت نے حکومتی ترجمانوں کو سوشل، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر کشمیر کاز بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کا مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں بھارت کے غیرآئینی اقدامات کے خلاف حکومتی حکمت عملی پر تیار کی گئی۔اُدھر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں ڈپلومیٹک کور سے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی لیکن بھارت نے ہماری پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بھارت دہشت گردی کا جھوٹا ناٹک رچانا چاہتا ہے۔ بھارتی میڈیا کشمیر میں 100 کے لگ بھگ دہشت گرد داخل ہونے کا جھوٹا پراپیگنڈا کر رہا ہے تاکہ دنیا کی توجہ وادی میں اپنے مظالم سے ہٹائی جاسکے۔دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوا تو بھارت پاکستان پر انگلیاں اٹھا سکتا ہے۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس حکام نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے تیار ہیں، جی سیون سمٹ میں وزیراعظم نریندر مودی سے مسئلہ کشمیر پر بات کرینگے۔ مودی جہاں بھی جائیں گئے مقبوضہ کشمیر پر جواب دہ ہونا ہی پڑے گا۔ فرانس میں جی سیون سمٹ اجلاس سے قبل مودی نے فرانسیسی صدر سے ملاقات کی۔ فرانس کے صدر عمانوئیل میکرون نے نریندر مودی سے کہا کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ بنیادوں پر حل کیا جائے۔ میکرون نے مودی پر زور دیا کشمیر میں انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے۔بھارت کی 9 اپوزیشن جماعتوں نے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر احتجاج کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہاں کچھ بہت سنگین ہورہا ہے اور ساتھ ہی کشمیر کے سیاسی رہنمائوں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کردیا۔ مقبوضہ وادی سے آنیوالی اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کشمیری کرفیو کی پابندیاں توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اقوام متحدہ دفتر کی جانب مارچ کیا۔ اس موقع پر مظاہرین آزادی کے حق اور بھارت کیخلاف نعرے لگا رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ روکنے کیلئے بھارت نے کرفیو اور دیگر پابندیاں مزید سخت کردی تھیں۔قابض انتظامیہ نے مقبوضہ وادی خاص طور پر سرینگر میں جگہ جگہ بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کر کے اسے ایک فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا۔ کے پی آئی کے مطابق بھارتی فورسز اہلکاروں نے لوگوں کو بھارتی جارحیت کیخلاف احتجاج کیلئے گھروں سے باہر آنے سے روکنے کیلئے سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں اور خار دار تاریں بچھائی تھیں۔
بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ہی مقبوضہ وادی میں سفاکیت اور بربریت میں بے محابہ اضافہ کر دیا۔ جدید اور مہلک اسلحہ سے لیس فوج کی تعداد بڑھا کر 9 لاکھ کردی مگر کشمیریوں کے جوش و جذبے میں کمی کے بجائے‘ اسے نئی مہمیز ملی وہ کرفیو کی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہے‘ جب بھی اور جیسے ہی موقع ملتا ہے‘ وہ احتجاج اور مظاہروں کیلئے گھروں سے باہر آجاتے ہیں۔بھارت کی جانب سے بھارتی فورسز کے بہیمانہ مظالم دنیا کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیرجانبدار عالمی میڈیا کے داخلے پر پابندی ہے۔ مقامی سطح پر انٹرنیٹ سمیت سوشل میڈیا کے ذرائع بند ہیں۔ اسکے باوجود مظالم کی کچھ نہ کچھ خبریں سامنے آجاتی ہیں۔ بدترین مظالم کی معمولی جھلک بھی انسانیت کے حامل لوگوں کے دل دہلا اور جگر چھلنی کردیتی ہے۔ کیمیائی اسلحہ کا استعمال تو بھارت کئی سال سے کررہا ہے۔ اسکے استعمال میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔ پیلٹ گنز بدستور خواتین اور بچوں پر بھی آزمائی جارہی ہیں۔ عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی پر الرٹ جاری کیا ہے۔ جس کے مطابق بھارت نسل کشی میں 10 مراحل میں سے آخری مرحلے کی انتہاء تک پہنچ چکا ہے۔ بھارتی فورسز کے بہیمانہ اقدامات سے انسانی المیہ جنم لیتا نظر آرہا ہے۔ گھروں میں راشن ختم‘ قحط کے خطرات منڈلا رہے ہیں‘ بچوں کیلئے دودھ تک ناپید ہے۔ مریض ادویات سے محروم ہیں۔ پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ کشمیریوں کی زندگی آسان ہوسکے۔ پاکستان کی طرف سے کشمیر ایشو پوری قوت اور تیاری کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا جارہا ہے جس سے بھارت پریشان ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ تو ختم کر دیا مگر اس سے صورتحال سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ پاکستان کی طرف سے حقائق سامنے لائے جانے پرعالمی برادری نے اسکی ناک میں دم کررکھا ہے۔ بھارت کیلئے اس موقع پر عالمی دبائو کا سامنا کرنا مشکل ہورہا ہے۔ اسکے میڈیا کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں طالبان کے داخلے کا لغو پراپیگنڈا کشمیر میں اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
وزیراعظم اور وزیر خارجہ کا اندازہ درست ہے کہ بھارت کوئی بھی ڈرامہ رچا سکتا ہے‘ کوئی مہم جوئی کر سکتا ہے جس سے آج کا عالمی منظرنامے پر پوری آب و تاب سے چھا جانیوالا کشمیر ایشو پھر قصہ پارینہ بن جائے۔ بھارت کی یہی تاریخ رہی ہے۔ وہ عالمی دبائو پر مذاکرات کی میز پر ضرور آتا رہا ہے مگر حیلے بہانوں سے مذاکراتی عمل کو موقع ملتے ہی یا خود موقع پیدا کرکے سبوتاژ کرتا رہا ہے۔ 2008ء میں دہلی میں وزرائے خارجہ کی سطح پر جامع مذاکرات ہورہے تھے کہ ممبئی حملوں کی ڈرامہ بازی کی گئی۔ اس سے پاکستانی وزیر خارجہ کو مذاکرات ادھورے چھوڑ کر واپس آنا پڑا ‘ یہی بھارت کی سازش تھی۔ پٹھانکوٹ حملے کا پس منظر اسلام آباد میں سیکرٹریز سطح پر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنا تھا۔ آج بھارت جس طرح عالمی دبائو کے پیش نظر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہے‘ اس صورتحال سے نکلنے کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ خواہ اس سے انسانی بحران اور المیہ ہی کیوں نہ جنم لے لے۔ بھارت کو پسپائی اور تنہائی کا جس طرح سامنا ہے‘ اس اس کا انداہ وائٹ ہائوس کی اس سرزنش سے کیا جا سکتا ہے کہ بھارت جہاں بھی جائیگا‘ اسے کشمیر پر جوابدہ ہونا پڑیگا۔ اس کا اشارہ گزشتہ روز سے فرانس میں شروع ہونیوالے تین روزہ جی سیون اجلاس کی طرف تھا جس میں بھارت بھی شرکت کررہا ہے۔ اسی اجلاس سے قبل ملاقات میں فرانسیسی صدر نے بھی مودی پر واضح کیا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ جی سیون اجلاس سے ایک روز قبل مودی فرانس پہنچے تو کشمیریوں‘ پاکستانیوں اور سکھوں نے ایئرپورٹ پر انکے خلاف شدید نعرہ بازی اور مظاہرہ کیا۔ اجلاس کے موقع پر بھی مودی کو ایسی ہی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی طرف سے معروضی حالات میں جس طرح سیاسی و عسکری قیادت‘ ادارے اور سفارتکار متحرک و فعال ہیں‘ اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ آج مسئلہ کشمیر بھارت کی حماقت کے باعث جس طرح عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے‘ اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی طرف سے اس ٹمپو کو برقرار رکھتے ہوئے مزید کاوشیں کرنا ہونگی۔ وزارت خارجہ اور خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کی طرح انکے بھی اپنے ہم منصبوں سے رابطے ہو رہے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے ترجمانوں کو نیا ٹاسک دیا گیا‘ وفود بیرون ممالک بھیجنے کا فیصلہ بھی معروضی حالات کا تقاضا ہے۔ ہر اقدام یقیناًراست سمت میں ہورہا ہے مگر اب بھی کہیں کہیں خلا محسوس ہوتا ہے۔ جی سیون دنیا کے سات صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کا گروپ ہے۔ یہ دنیا کی نصف معیشت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ امریکہ‘ جاپان‘ برطانیہ اور کینیڈا اسکے مستقل رکن ہیں۔ انہی ممالک میں باری باری اسکے سربراہی اجلاس ہوتے ہیں۔ اس اجلاس میں شامل اکثر ممالک کشمیر ایشو پر پاکستان کی حمایت کرچکے ہیں۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایک ایک ملک کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں بھارت پر نہ صرف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر زور دیا جاتا بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی بھارت پر دبائو بڑھایا جاتا۔بھارت کیلئے فرار کا کوئی راستہ نہ چھوڑا جاتا‘ بھارت ان ممالک کے مطالبات کو مسترد کرتا تو اسے معاشی پابندیوں کے آپشن سے آگاہ کر دیاجاتا۔ شاید پاکستان کی طرف سے یہ سب کچھ کیا گیا ہو‘ اس کا اندازہ جی سیون اجلاس کے اعلامیہ سے ہوگا۔