پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر وزیراعظم عمران خان کا سب سے بڑا فیصلہ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میںتین سال کی توسیع کرنے کا ہے۔ سیاسی و عسکری حلقوں میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیاں 20 اگست 2019 کو وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے بعد ختم ہو گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کا فیصلہ ملک اور خطے میں جاری امن کی کوششوں کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے کیا ہے۔جنرل باجوہ پاکستان کے دوسرے آرمی چیف ہیں جن کی مدت ملازمت میں 3سال کی توسیع کی گئی ہے ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے29نومبر 2016پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی۔راولپنڈی کے آرمی سٹیڈیم میں پاک فوج کی کمان کی تبدیلی کی پروقار تقریب ہوئی جہاں جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی جگہ پاک فوج کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ انہوں نے 16 بلوچ رجمنٹ میں 24 اکتوبر 1980 کو کمیشن حاصل کیا، یہ وہی رجمنٹ ہے جس کے ماضی میں جنرل یحییٰ خان، جنرل مرزااسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویزکیانی آرمی چیف بنے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ملکی تاریخ میں جمہوری حکومت کی جانب سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع پانے والے دوسرے آرمی چیف ہیں۔ اس سے قبل 24جولائی2010 کواس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کی توسیع دی تھی ۔ جنرل ایوب خان ،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف مشرف مارشل لاء نافذ کرکے طویل عرصے تک آرمی چیف اور صدر رہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر جہاں حکومتی حلقوں نے اس فیصلے کے حق میں ٹھوس دلائل دیئے ہیں وہیں متحدہ اپوزیشن کی دوسری آل پارٹیز کانفرنس نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو’’معمول کافیصلہ‘‘ قراردے دیا ہے اور کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو سیاسی نکتہ نظر سے نہ دیکھا جائے سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی رہتی ہے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ جب آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہو رہی تھی تو شرکاء کے ’’وٹس ایپ‘‘ پر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کی توسیع کی خبر آ چکی تھی لیکن اے پی سی میں شریک کسی سیاسی جماعت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو موضوع گفتگو نہیں بنایا اسی طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب دینے سے گریز کیا ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے سیاسی حلقوں کی جانب سے اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جنرل باجوہ اپنی تمام تر توجہ ملکی سالمیت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی طرف مرکوز رکھیں اور عمران حکومت اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہیں اٹھائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں بروقت فیصلہ کر کے اس معاملہ کو’’ ٹی وی شوز اور سیاسی بیٹھکوں ‘‘ کا موضوع بننے نہیں دیا انہوں نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر سیاست کرنے کے دروازے بھی بند کر دئیے ہیں ۔مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعت کے چیدہ چیدہ رہنمائوں کے اجلاس میں پارٹی کے صدر نے آرمی چیف کی مدت ملازمت پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں دی لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت ایک طرف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے اقدام کا دھڑلے سے دفاع کر رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن نے بھی اس فیصلہ کو قبول کر لیا ہے کسی جانب سے بھی اس فیصلہ پر تنقید نہیں کی گئی گویا اپوزیشن نے بھی حکومت کے فیصلے کی بالواسطہ تائید ہی کر دی ہے
متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ تو شروع دن سے عمران حکومت پرادھار کھائے ہوئے تھے انہوں نے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے کا مشورہ دیا لیکن آصف علی زرداری نے انہیں پارلیمنٹ کے اندر لڑائی لڑنے کی راہ دکھائی میاں شہباز شریف نے بھی ان کی دیکھا دیکھی پارلیمنٹ جانے میں ہی عافیت سمجھی پچھلے ایک سال کے دوران متحدہ اپوزیشن کا قیام عمل میں آرہا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کے ’’جارحانہ طرز عمل‘‘ نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کر دیا مولانا فضل الرحمنٰ پچھلے کئی ماہ سے بڑے بڑے شہروں میں ’’ملین مارچ‘‘ کر کے ’’نیٹ پریکٹس ‘‘ کر ہی رہے تھے انہوں نے پہلی آل پارٹیز کانفرنس میں ہی اسلام آباد پر’’ سیاسی لشکر کشی‘‘ کی تجویز پیش کر دی لیکن ان کے عزائم کی راہ میں بلاول بھٹو زرداری حائل ہو گئے اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ وہ حکومت گرانے کی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے ‘‘جس کے بعد مولانا فضل الرحمنٰ کو تحریک موخر کرنا پڑی لیکن پچھلے چند دنوں میں پلوں کے نیچے سے بڑا پانی گذر چکا ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو جس طرح ناکا م بنایا گیا ہے وہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے مولانا فضل الرحمنٰ نے ’’آئو دیکھا نہ تائو‘‘ 19اگست 2019ء کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی لیکن اے پی سی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے علالت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دورہ بلتستان کی وجہ سے شرکت نہ کر کے اس کی اہمیت کم کر دی ۔آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر جب مولانا فضل الرحمنٰ سے صحافیوں نے میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی عدم شرکت کے بارے میں سوالات کئے تو انہوں نے تلخ انداز میں جواب دیا کہ ’’ بلاول بھٹو اور شہباز شریف کے نہ آنے کو ایشو نہ بنایا جائے ہمیں پتہ ہے وہ کیوں نہیں آئے ‘‘ ۔ دوسری آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں اکتوبر2019ء میں ملین مارچ کا ذکر نہیں لیکن 5گھنٹے تک جاری رہنے والی اے پی سی میں کسی سیاسی جماعت نے ملین مارچ کی مخالفت نہیں کی اور اے پی سی نے رہبر کمیٹی کو ایک ہفتے میں’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ تیار کرنے کا ٹاسک دے دیا اور ہدایت کی کہ وہ 26 اگست 2019کو اجلاس منعقد کرکے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘ تیار کرے تاکہ 29 اگست کو منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی حتمی منظوری حاصل کی جا سکے تیسری آل پارٹیز کانفرنس کے ایجنڈا میں اسلام آباد کی جانب ملین مارچ سر فہرست ہو گا لیکن اے پی سی کے بعد ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی جانب یہ کہا جانے لگا ہے وہ حکومت گرانے کی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی مولانا فضل الرحمنٰ ’’دبنگ‘‘ سیاست دان ہیں وہ جوبات طے کر لیتے ہیں اس سے پیچھے نہیں ہٹتے وہ حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے ’’ریڈ زون ‘‘ میں آنے کا چیلنج قبول کرچکے ہیں اور کہا ہے کہ وہ ریڈ زون میں 10لاکھ کارکنوں کو اکھٹا کرکے دکھا دیں گے ۔ انہوں نے واقعی بڑے بڑے شہروں میں تنہا ملین مارچ منعقد کر کے اپنی سیاسی دھاک بٹھا دی ہے اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو ملین مارچ سے الگ کرنے کی کوشش کی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے لیت و لعل سے کام لیا ہے وہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ملین مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں مولانا فضل الرحمنٰ کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے ہم سب اسلام آباد متحد ہو کر آئیں گے اور دیکھیں کہ کون ان کے راستے میں آتا ہے‘‘ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کو کیسے بچانا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ہے کہ جب ہم اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہوگا ۔ کوئی سیاسی جماعت ’’ اسلام آباد لاک ڈائون‘‘ کی تیاری شروع کر رہی ہے یا نہیں مولانا فضل الرحمنٰ انتہائی متحرک ہیں وہ اپنی تحریک کو مذہبی رنگ دے دینی مدارس کے طلبہ کو سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ’’ اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے ہمارا کوئی راستہ نہیں روک سکتا‘‘ 29 اگست 2019ء کو تیسری آل پارٹیز کانفرنس ہو رہی ہے جس میں اکتوبر2019ء کو ملین مارچ کی منظوری حاصل کی جائے گی اگر آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے ’’ملین مارچ‘‘ کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو مولانا فضل الرحمنٰ از خود ملین مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں ۔ رہبر کمیٹی کی طرف سے تیار کردہ ’’چارٹر آف ڈیمانڈ ‘‘میں حکومت کو مستعفی ہونے کے لئے ایک ماہ کی ’’ ڈیڈ لائن ‘‘ دی جائے گی ملین مارچ سے قبل چاروں صوبائی دار الحکومتوں میں بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو تحریک کے لئے ’’ موبلائز ‘‘کیا جائے گا ان جلسوں سے اپوزیشن کی مرکزی قیادت خطاب کرے گی سر دست حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ڈائیلاگ ‘‘ کا کوئی امکان نہیں کیونکہ حکومت کو یہ زعم ہے کہ اپوزیشن میں دم خم نہیں اس کے پاس حکومت گرانے کے لئے ’’ سٹریٹ پاور ‘‘ نہیں لیکن دوسری طرف مولانافضل الرحمنٰ اپنی ’’سٹریٹ پاور ‘‘ کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اگر حکومت نے حالات کی سنگینی کو نہ سمجھا تو آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ریڈ زون میں ’’میدان ‘‘ سج سکتا ہے ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024