پاکستان کے حصے کا کام
ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کا ملک لاکھ شو رمچاتے رہیں اور ’’ڈومور‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں یہ بات دنیا کو اب تسلیم کرنا پڑے گی کہ ریاست پاکستان اور اس کی افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو قربانیاں دی ہیں اُن کا ثمر ملک میں قائم ہوتے امن کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں آئے روز خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی تھیں۔ اس سے تو خدانخواستہ یہ لگتا تھا کہ جیسے پاکستان کبھی اس عفریت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے گا۔ لیکن پاکستانی قوم اور افواج پاکستان نے ہزاروں قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر کے ملک کو دہشت گردی کے اندھیروں سے نکالا۔ ظاہر ہے پاکستان دشمنوں کو پاکستان میں قائم ہوتا ہوا امن ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ لہٰذا وہ اپنے اثاثوں کے ذریعے سے پاکستان کے اندر
دہشت گردی کے اکادکا واقعات کر کے اپنی موجودگی کا تاثر دیتے رہتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کی افواج بہرکیف اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گی جب تک ایک بھی دہشت گرد یا دہشت گردوں کے سہولت کار اس سرزمین میں موجود ہوں گے۔ اسی مقصد کے پیش نظر آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ جس میںسول آرمڈ فورسز اور دیگر سویلین ادارے بھی پاک فوج کی معاونت کر رہے ہیں۔ انہیں ملک بھر میں جہاں کہیں بھی اس امر کا سراغ ملتا ہے کہ وہاں دہشت گرد یا اُن کے سہولت کار موجود ہیں تو فوری طور پر ان کی سرکوبی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی اور پاکستانی قوم یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ الحمد ﷲ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ٹھکانے اس طرح سے موجود نہیں ہیں جس طرح پہلے ہوا کرتے تھے اور وہ اس قوم کو یرغمال بنانے کے درپے تھیـ۔ لیکن قوم دلیری کے ساتھ اپنی افواج کے شانہ بشانہ ان کے سامنے ڈٹی رہی اور آج الحمدﷲ پاکستان کافی حد تک اس عفریت سے چھٹکارا پا چکا ہے۔ مغربی سرحدوں کی جانب بھی کم از کم پاکستانی سرحدوں کے اس پار دہشت گردوں کے ٹھکانے اب نہیں رہے۔ ان کے خلاف افواج پاکستان نے خودکارروائی کی جبکہ دوسری جانب افغانستان کے اندر کئی ممالک کی افواج پر مشتمل نیٹو افواج تھیں جن کی کارکردگی کا پول اس طرح کھلا ہے کہ آج کا افغانستان پہلے سے بھی زیادہ غیرمستحکم ہے۔ بھارت افغانستان میں مختلف منصوبوں کی آڑ میں افغانستان کے ساتھ دوستی نبھانے کا ڈرامہ کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ افغانستان کو کبھی بھی مضبوط نہیں ہونے دے گا اور افغانستان کو ایک انتشار زدہ ملک کے طور پر ہی دیکھنا پسند کرے گا۔ بہرکیف بات ہو رہی تھی پاکستانی افواج کی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی تو وہ اب بھی اسی شدومد کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے میں سرگرم ہے۔ حال ہی میں پاک فوج نے رواں برس 15جولائی سے شروع ہونے والا آپریشن خیبر فور مکمل کیا ہے۔ چند روز قبل ایک پریس کا نفرنس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو آپریشن خیبر فور کی کامیاب تکمیل سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وادی راجگال کا 250مربع میٹر علاقے کلیئر کرا لیا گیا ہے۔ یہ آپریشن ایک دشوار گزار علاقے میں کیا گیا جس میں 52 دہشت گرد ہلاک جبکہ 31زخمی ہوئے اور چار نے ہتھیار ڈال دیئے۔ دہشت گردوں کے قبضے سے برآمد کئے جانے والے سامان میں بارودی سرنگ بنانے والا مواد، جس میں ’’میڈ ان انڈیا‘‘لکھا ہوا تھا، بھی شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ راجگال اور شوال میں زمینی اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔اور اب خیبر ویلی میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس انکشاف کہ دہشت گردوں سے ملنے والے بارودی سرنگ بنانے والے مواد میں ’’میڈ ان انڈیا‘‘ لکھا ہوا تھا سے دشمن ملک کے عزائم کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان پر پے درپے حملے کر کے خدانخواستہ اسے نیست ونابود کرنا چاہتا ہے۔ اس سے افغانستان کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت اگر افغانستان میں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرتا ہے تو اُس کی آڑ میں وہاں ’’میڈ ان انڈیا‘‘ بارودی سرنگیں بھی پہنچا رہا ہے تاکہ بوقت ضرورت افغانستان میں دھماکوں کے لئے کام آ سکیں۔ پچھلے دنوں یہ خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں کہ افغانستان کے اندر ہونے والے دھماکوں میں بھارتی ہاتھ شامل ہے۔ لہٰذا بھارت ایک طرف بہت ہوشیاری سے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں ملوث ہے تو دوسری جانب افغانستان ہی کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے اندر بھی لاشوں کے انبار لگانے میں مصروف ہے۔ بھارت افغانستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کروا کر اپنے میڈیا کے ذریعے اُن کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بھارت اپنے ہاں ہونے والے ہر دھماکے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتاہے۔ بھارت کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہوتا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہتا ہے۔ اس میں اسے امریکہ جیسی بین الاقوامی طاقت کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ امریکہ تو خود اپنی ہر ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر کے اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی پالیسیاں دنیا بھر میں بالخصوص جنوبی ایشیائی خطے میں ناکام ہوتی ہیں تو وہ اُن کی ذمہ داری خود پر تو نہیں لے گا وہ بڑی آسانی سے ان کا ملبہ پاکستان یا پھر افغانستان پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی سعی کرتا رہے گا۔ ٹرمپ کی تقریر میں جس طرح سے پاکستان کو موردالزام ٹھہرایا گیا اس پر دوست ملک چین کا بھی بھرپور موقف سامنے آیا ہے۔ خطے کے یہ ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے کتنی قربانیاں دیں اور کس قدر کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ پاکستان اب بھی اس طاقت اور عزم کے ساتھ دہشت گردی کے عفریت کی باقی ماندہ گندگی صاف کر کے اس سرزمین کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس کے لئے پاکستان کے سپوت اپنی جانوں کے نذارنے دے رہے ہیں۔ قوم ان قربانیوں کی قدر کرتی ہے ا ور کرتی رہے گی۔ امریکہ اور اس کے حواری میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے رہے ہیں اور لگاتے رہیں گے۔ پاکستان کو ان کی فکر نہیں کرنی چاہئے اور اپنے حصے کا کام اسی تندہی سے کرتے رہنا ہے تاکہ اس پاک سرزمین کو محفوظ اور خوشحال بنایا جا سکے۔