شہباز شریف نے ایوان قائداعظم کیلئے آغاز تعمیر کی تقریب میں کہا کہ یہ عمارت نہیں نظریے کی طاقت کی تعمیر ہے۔ تعمیر سے تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ ایوان قائداعظم ایک نظریاتی یونیورسٹی بن کر ابھرے گا۔ نجانے یہ بات کس دل اور درد سے انہوں نے کہی کہ اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اسد اسلم نے ایک نظریاتی تقریب کا اہتمام کیا جس میں چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور چیف ایڈیٹر نوائے وقت مجید نظامی نے خاص طور پر شرکت کی۔ سب کو معلوم ہے کہ مجید نظامی کے دل کے تین آپریشن ہو چکے ہیں مگر ایک میڈیکل یونیورسٹی کی تقریب میں اس کے معانی اور گہرے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بائی پاس کو ٹرائی پاس کہا۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے شاہد رشید نے مختلف سکالرز سے لیکچرر دلوانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ ہو سکا تو وہ ضرور یونیورسٹی پہنچیں گے۔ ڈاکٹر رفیق احمد بھی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ہیں۔ وہ بھی نوجوانوں سے بڑھ کر کام کرنے والے انسان ہیں۔ نظریہ پاکستان میں نظریاتی سمر سکول کی افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران کو بلایا گیا۔ انہوں نے بچوں کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ جیسے ان کے اندر بھی بچہ موجود ہو۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کو نیا زمانہ دیا ہے جس میں پرانے زمانے کی کئی ساعتیں سانس لے رہی ہیں۔
مجید نظامی نے ابھی کچھ دن پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں لائبریری کے اندر نظریاتی لائبریری کا افتتاح کیا تھا۔ بزم اقبال کے ڈائریکٹر پروفیسر مظفر مرزا بھی ایسی تقریبات میں جا سکتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پروفیسر مرزا دل کی بیماری سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے اور زخمی دل والے لوگ ہی پاکستان کیلئے یہ کام کر گزریں گے۔ ایک بار میں نے میانوالی کالج میں اقبالیات پر لیکچر کیلئے استاد محترم جینوئن ماہر اقبال سکالر مرحوم پروفیسر محمد منور مرزا کو بلایا تھا اور وہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود میانوالی آ گئے تھے۔ وہ مظفر مرزا کے بڑے بھائی تھے۔ وہ ریل گاڑی ماڑی انڈس میں لاہور سے میانوالی پہنچے تو مجھے گلہ نہ کیا صرف اتنا کہا کہ تمہاری طرف کوئی چنگی انڈس نہیں چلتی۔ اب تک اس راہ پر ماڑی انڈس رینگ رہی ہے۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور چنگی ریل گاڑیوں کو بند کرا لیں تو ماڑی ریل گاڑیوں کی باری بھی آ جائے گی۔ بلور صاحب کو یہ گانا سنانے کو جی چاہتا ہے۔ سن وے بلوری اکھ والیا۔
بہرحال نظریاتی یونیورسٹی کی ہوا چل پڑی ہے۔ اب نظریہ پاکستان کی خوشبو پھیلے گی جو پاکستان دشمن این جی اوز والوں کی نیندیں حرام کر دے گی۔ یہ سب سے مفید طریقہ ہے کہ بچوں کے ذہن و دل میں پاکستان کی محبت نقش کر دی جائے تاکہ وہ جو خواہ مخواہ پاکستان کا نقشہ تبدیل کرنے والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ بے یارومددگار ہو جائیں۔ انہوں نے ڈاکٹر اسد اسلم کی بہت تعریف کی۔ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر ممتاز حسن بھی موجود تھے۔ وہ اس عظیم کالج کے پرنسپل بھی تھے۔ اب ڈاکٹر اسد اسلم نئی عمارت کے ساتھ نیا آغاز کرنے والے ہیں۔ ایوان قائداعظم کی تعمیر کے ساتھ اس میڈیکل یونیورسٹی کی تعمیر بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد بھی شہباز شریف نے رکھا تھا۔ نظریاتی تقریب مزید مبارک ثابت ہو گی۔ اب ایک اچھے دل و دماغ والے انسان کو اس تاریخی ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔
مجید نظامی نے لیڈی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد دیکھ کر کہا کہ اب علاج کیلئے ان کے پاس جانا ہو گا۔ وہ دل کا علاج کیا کریں گی۔ اس طرح کسی اور دل کی بیماری کے لگ جانے کا اندیشہ بھی ہے۔ پسندیدگی اور ذوق و شوق اور جذب و مستی تو ایک مثبت جذبہ ہے۔ اس موقع پر عظیم شاعر غالب مغلوب یاد آتا ہے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ لا دوا پایا....!
آخر اتنی قابل لڑکیاں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کہاں چلی جاتی ہیں۔ انہیں لیڈی ڈاکٹر کی بجائے ڈاکٹر صاحب کہا جانا چاہئے۔ گھر بسانا اچھا ہے مگر اتنا بے شمار پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اچھی بیوی ہونا بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ مگر اہلیہ اہل سے بھی ہوتی ہے۔ اتنی اہلیتوں کے بعد ان سے حساب کتاب بھی ہو گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک نیک دل ڈاکٹر اپنے مریض پر اچھی نگاہ ڈالتا ہے تو اس کی آدھی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔
یہ تقریب میڈیکل سٹوڈنٹس کے قبضے میں تھی اور وہ ہم سے بھی زیادہ نظریاتی لگ رہے تھے۔ قاسم خان اور سدرہ لطیف نے کمپیئرنگ کی۔ صہیب اور ابوبکر نے تقریریں کیں۔ ”قائد کا پاکستان اور آج کا پاکستان“ ایک پیٹریاٹک وڈیو دکھائی گئی۔ یہ محب وطن ویڈیو ہر تعلیمی ادارے میں دکھائی جائے۔ اس مونولاگ میں سعد‘ فہد‘ احسن اور مظہر نے بڑے جذبے سے کام کیا۔ قائداعظم قبر سے نکلتے ہیں اور اپنے پاکستان میں جاتے ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور نفسانفسی۔ وہ مینار پاکستان تلے آ جاتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے ہیں۔ ہم نعرے بازی اور بیان بازی سے آگے کب جائیں گے۔ یہ تو قائداعظم کی عزت نہیں کہ ہم 14 اگست کو قومی پرچم لہرائیں۔ قومی ترانہ کھڑے ہو کر سنیں اور بس۔ قائداعظم کا پاکستان بنانے کیلئے نظریہ پاکستان اپنے لہو میں زندہ کرنا ہو گا۔ نصاب تعلیم اور نصاب زیست میں یہ جذبہ شامل کر کے ہی ہم ایک سچے پاکستانی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ زندگی ہمارا نصیب بنے گی اور ہم خوش نصیب ہوں گے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس مشن اور وژن کو ایک کر دینا چاہتا ہے۔ اس یادگار تقریب میں ارسلان بیگ نے قومی ترانہ گا کے سامعین کو دم بخود کر دیا۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی بھی مجید نظامی کے ساتھ تھے۔ وہ سچے آدمی ہیں۔ ہنستے ہنستے بڑی سنجیدہ باتیں کر جاتے ہیں۔ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ڈینٹل سرجن ڈاکٹر ہیں اور مادر ملت بھی ڈینٹل سرجن تھیں۔ خواجہ سعد رفیق سٹوڈنٹ پالیٹکس سے ہوتے ہوئے قومی پالیٹکس میں آئے ہیں۔ میں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں اسے دیکھا تھا۔ مجید نظامی نے الحمرا ہال میں خواجہ صاحب کو تقریر کرتے ہوئے پسند کیا تھا۔ آج بھی ان کی موجودگی میں اس نے کہا کہ کراچی سے ابتر حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں سو رہی ہیں۔ یہ اعتراف بھی ایک جرا¿ت ہے مگر اسے کون بتائے کہ یہ سوئے لوگ خواب خرگوش میں ہیں۔ خواب تک نہیں دیکھتے اور تعبیر میں اپنی تقدیر ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ان کی منزل پاکستان نہیں حکومت پاکستان ہے۔ ان کے خیال میں اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی اہمیت ہے۔ مجید نظامی کی بات میں ایک درد تھا۔ حالات بہت ابتر ہیں۔ خدا کرے پاکستان دو قومی نظریے کا ملک بنا رہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹر اسد اسلم سے شیلڈ وصول کرتے ہوئے ان کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ لوگو! نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر ٹرسٹ کرو۔ قائداعظم کا پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا۔ تم اسے قائداعظم کا پاکستان تو بنا¶۔!!!
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے شاہد رشید نے مختلف سکالرز سے لیکچرر دلوانے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ ہو سکا تو وہ ضرور یونیورسٹی پہنچیں گے۔ ڈاکٹر رفیق احمد بھی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ہیں۔ وہ بھی نوجوانوں سے بڑھ کر کام کرنے والے انسان ہیں۔ نظریہ پاکستان میں نظریاتی سمر سکول کی افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران کو بلایا گیا۔ انہوں نے بچوں کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ جیسے ان کے اندر بھی بچہ موجود ہو۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کو نیا زمانہ دیا ہے جس میں پرانے زمانے کی کئی ساعتیں سانس لے رہی ہیں۔
مجید نظامی نے ابھی کچھ دن پہلے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں لائبریری کے اندر نظریاتی لائبریری کا افتتاح کیا تھا۔ بزم اقبال کے ڈائریکٹر پروفیسر مظفر مرزا بھی ایسی تقریبات میں جا سکتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پروفیسر مرزا دل کی بیماری سے فارغ ہو کر گھر پہنچے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے اور زخمی دل والے لوگ ہی پاکستان کیلئے یہ کام کر گزریں گے۔ ایک بار میں نے میانوالی کالج میں اقبالیات پر لیکچر کیلئے استاد محترم جینوئن ماہر اقبال سکالر مرحوم پروفیسر محمد منور مرزا کو بلایا تھا اور وہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود میانوالی آ گئے تھے۔ وہ مظفر مرزا کے بڑے بھائی تھے۔ وہ ریل گاڑی ماڑی انڈس میں لاہور سے میانوالی پہنچے تو مجھے گلہ نہ کیا صرف اتنا کہا کہ تمہاری طرف کوئی چنگی انڈس نہیں چلتی۔ اب تک اس راہ پر ماڑی انڈس رینگ رہی ہے۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور چنگی ریل گاڑیوں کو بند کرا لیں تو ماڑی ریل گاڑیوں کی باری بھی آ جائے گی۔ بلور صاحب کو یہ گانا سنانے کو جی چاہتا ہے۔ سن وے بلوری اکھ والیا۔
بہرحال نظریاتی یونیورسٹی کی ہوا چل پڑی ہے۔ اب نظریہ پاکستان کی خوشبو پھیلے گی جو پاکستان دشمن این جی اوز والوں کی نیندیں حرام کر دے گی۔ یہ سب سے مفید طریقہ ہے کہ بچوں کے ذہن و دل میں پاکستان کی محبت نقش کر دی جائے تاکہ وہ جو خواہ مخواہ پاکستان کا نقشہ تبدیل کرنے والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ بے یارومددگار ہو جائیں۔ انہوں نے ڈاکٹر اسد اسلم کی بہت تعریف کی۔ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر ممتاز حسن بھی موجود تھے۔ وہ اس عظیم کالج کے پرنسپل بھی تھے۔ اب ڈاکٹر اسد اسلم نئی عمارت کے ساتھ نیا آغاز کرنے والے ہیں۔ ایوان قائداعظم کی تعمیر کے ساتھ اس میڈیکل یونیورسٹی کی تعمیر بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس کا سنگ بنیاد بھی شہباز شریف نے رکھا تھا۔ نظریاتی تقریب مزید مبارک ثابت ہو گی۔ اب ایک اچھے دل و دماغ والے انسان کو اس تاریخی ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔
مجید نظامی نے لیڈی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد دیکھ کر کہا کہ اب علاج کیلئے ان کے پاس جانا ہو گا۔ وہ دل کا علاج کیا کریں گی۔ اس طرح کسی اور دل کی بیماری کے لگ جانے کا اندیشہ بھی ہے۔ پسندیدگی اور ذوق و شوق اور جذب و مستی تو ایک مثبت جذبہ ہے۔ اس موقع پر عظیم شاعر غالب مغلوب یاد آتا ہے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی دردِ لا دوا پایا....!
آخر اتنی قابل لڑکیاں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کہاں چلی جاتی ہیں۔ انہیں لیڈی ڈاکٹر کی بجائے ڈاکٹر صاحب کہا جانا چاہئے۔ گھر بسانا اچھا ہے مگر اتنا بے شمار پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اچھی بیوی ہونا بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ مگر اہلیہ اہل سے بھی ہوتی ہے۔ اتنی اہلیتوں کے بعد ان سے حساب کتاب بھی ہو گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک نیک دل ڈاکٹر اپنے مریض پر اچھی نگاہ ڈالتا ہے تو اس کی آدھی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔
یہ تقریب میڈیکل سٹوڈنٹس کے قبضے میں تھی اور وہ ہم سے بھی زیادہ نظریاتی لگ رہے تھے۔ قاسم خان اور سدرہ لطیف نے کمپیئرنگ کی۔ صہیب اور ابوبکر نے تقریریں کیں۔ ”قائد کا پاکستان اور آج کا پاکستان“ ایک پیٹریاٹک وڈیو دکھائی گئی۔ یہ محب وطن ویڈیو ہر تعلیمی ادارے میں دکھائی جائے۔ اس مونولاگ میں سعد‘ فہد‘ احسن اور مظہر نے بڑے جذبے سے کام کیا۔ قائداعظم قبر سے نکلتے ہیں اور اپنے پاکستان میں جاتے ہیں۔ ہر طرف افراتفری اور نفسانفسی۔ وہ مینار پاکستان تلے آ جاتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے ہیں۔ ہم نعرے بازی اور بیان بازی سے آگے کب جائیں گے۔ یہ تو قائداعظم کی عزت نہیں کہ ہم 14 اگست کو قومی پرچم لہرائیں۔ قومی ترانہ کھڑے ہو کر سنیں اور بس۔ قائداعظم کا پاکستان بنانے کیلئے نظریہ پاکستان اپنے لہو میں زندہ کرنا ہو گا۔ نصاب تعلیم اور نصاب زیست میں یہ جذبہ شامل کر کے ہی ہم ایک سچے پاکستانی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ زندگی ہمارا نصیب بنے گی اور ہم خوش نصیب ہوں گے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس مشن اور وژن کو ایک کر دینا چاہتا ہے۔ اس یادگار تقریب میں ارسلان بیگ نے قومی ترانہ گا کے سامعین کو دم بخود کر دیا۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی بھی مجید نظامی کے ساتھ تھے۔ وہ سچے آدمی ہیں۔ ہنستے ہنستے بڑی سنجیدہ باتیں کر جاتے ہیں۔ اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ڈینٹل سرجن ڈاکٹر ہیں اور مادر ملت بھی ڈینٹل سرجن تھیں۔ خواجہ سعد رفیق سٹوڈنٹ پالیٹکس سے ہوتے ہوئے قومی پالیٹکس میں آئے ہیں۔ میں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں اسے دیکھا تھا۔ مجید نظامی نے الحمرا ہال میں خواجہ صاحب کو تقریر کرتے ہوئے پسند کیا تھا۔ آج بھی ان کی موجودگی میں اس نے کہا کہ کراچی سے ابتر حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں سو رہی ہیں۔ یہ اعتراف بھی ایک جرا¿ت ہے مگر اسے کون بتائے کہ یہ سوئے لوگ خواب خرگوش میں ہیں۔ خواب تک نہیں دیکھتے اور تعبیر میں اپنی تقدیر ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ان کی منزل پاکستان نہیں حکومت پاکستان ہے۔ ان کے خیال میں اسلام سے زیادہ اسلام آباد کی اہمیت ہے۔ مجید نظامی کی بات میں ایک درد تھا۔ حالات بہت ابتر ہیں۔ خدا کرے پاکستان دو قومی نظریے کا ملک بنا رہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹر اسد اسلم سے شیلڈ وصول کرتے ہوئے ان کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ لوگو! نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر ٹرسٹ کرو۔ قائداعظم کا پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا۔ تم اسے قائداعظم کا پاکستان تو بنا¶۔!!!