ڈاکٹر علی اکبر الازہری
کراچی ہمارے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ملک کی معیشت میں بھی اس کی حیثیت نہایت اہم ہے۔ اب تک یہی ملک کی واحد فعال بندرگاہ ہے اس لئے عالمی سطح پر پاکستان کے ٹریڈ کا سارا دارومدار کراچی پر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پورے ملک سے ہر زبان بولنے والے آباد ہیں‘ یہاں کی فیکٹریاں اور تجارتی مراکز ملک بھر کے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ کراچی کو اسی لئے غریب پرور شہر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ جسے کہیں روزگار یا مزدوری نہیں ملتی تھی وہ کراچی چلا آتا تھا اور یہ شہر ایسے غریب الدیار لوگوں کو ماں کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیتا تھا۔ کراچی کی یہ حیثیت پاکستان مخالف قوتوں کی نظر میں ہے اس لئے اس ملک کی سلامتی کے دشمن اب کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہیں۔
ویسے تو شہر قائد گذشتہ کئی عشروں سے بدامنی، لسانی اور نسلی فسادات کی زد میں ہے مگر حالیہ دنوں میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہاں کی سڑکیں، مارکیٹ اور رہائشی علاقوں سے بے گناہوں کے لاشے نہ اُٹھتے ہوں۔ رمضان کے مقدس دنوں میں بھی ہزاروں اموات واقع ہوچکی ہیں، بوری بند لاشیں پیغامات کےساتھ سڑکوں پر پڑی ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخریب کاروں نے مختلف علاقوں میں باقاعدہ عقوبت خانے بنا رکھے ہیں جہاں لوگوں کو اغواءکر کے انہیں اذیت سے گزار کر بے رحمی سے ہاتھ پاﺅں کاٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ایسا کرنےوالے خود کو انسان سمجھتے ہیں۔ ہم نے تاتاریوں، چنگیزیوں اور نازیوں کے مظالم کی داستانیں سنی تھیں مگر کیا خبر تھی کہ عروس البلاد کی آستینوں میں ان سے بھی بڑے سانپ پل رہے ہیں اور شہر قائد میں ان سے بھی شرمناک مظالم کی داستانیں دہرائی جارہی ہیں۔ لاقانونیت سمیت قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار اور بھتہ خوری کا فوری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کاروباری مراکز بند ہوگئے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر طرف خوف کا عالم ہے باہر نکلنے والا سلامتی سے گھر واپس آنے کی امید نہیں رکھ سکتا۔ مائیں اپنے پیاروں کو سکول، کالج بھیجنے سے گھبراتی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جو کسی بھی معاشرے کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ کراچی جیسے اہم صنعتی اور تجارتی شہر میں پہلے ہی توانائی کے بحران نے کاروباری حجم کو کم کردیا تھا اب جو کسر رہتی تھی وہ اس خونی لہر نے پوری کردی۔ گذشتہ چند دنوں میں سرمایہ دار یہاں سے متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال حتی کہ بنگلہ دیش میں منتقل ہوچکے ہیں۔
موجودہ حکومت اس سارے خونی کھیل میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ حکومت یا تو صلاحیت سے عاری ہے یا پھر ارادے اور نیک نیتی کا فقدان ہے۔ دونوں صورتوں میں اسکا جرم ناقابل معافی ہے۔ حالیہ واقعات میں اسکی عدم فعالیت تو ناقابل معافی قومی جرم ہے۔ اب تک کے حالات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت اپنی سیاسی ساکھ اور مستقبل بچانے کی فکر میں ملک کے کئی اداروں کو تباہ کرچکی ہے۔ کراچی کے مسئلے میں بھی حکومت گومگو کا شکار ہے۔ کراچی پر متحدہ کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ اب تک یہ جماعت حکومت میں شامل رہی ہے دوسرے نمبر پر کچھ علاقے اگر اے این پی کے زیر اثر ہیں تو وہ بھی بدستور حکومت کی حلیف جماعت ہے۔ تیسرا نمبر حکومت کی اپنی پارٹی ”پی پی“ کا ہے۔ لیاری جیسے بدنام علاقوں میں اسکی اپنی عملداری ہے، کہا جاتا ہے کہ ان تینوں جماعتوں نے حسب ضرورت اور حسب استطاعت اپنے اپنے علاقوں میں گینگ بنا رکھے ہیں۔ یہ گینگ دراصل جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہیں جو سیاسی چھتریوں کے نیچے اپنے مقاصد کی کھلم کھلا تکمیل کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں عام طور پر پولیس حالات پر قابو پاسکتی ہے لیکن کراچی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ پولیس جانبدار سیاسی بھرتیوں سے بھری ہوئی ہے اس لئے غیر موثر ہوچکی ہے۔ اسکی ایک واضح مثال 12 مئی کا واقعہ ہے جب تخریب کار دن دہاڑے لاشیں گرا رہے تھے، آگ لگا رہے تھے اور کنٹینر کھڑے کر کے پورے شہر کو مفلوج کیا جا رہا تھا مگر پولیس ہمیں کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
اب اگر عدالت عظمیٰ نے قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایک مراسلے پر سووموٹو ایکشن لے لیا ہے تو یہ اس پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ بالخصوص تینوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہونےوالے جرائم پیشہ تربیت یافتہ افراد کی چھان بین ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں پر عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں اور فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں انہیں فوری کیفر کردار کو پہنچانا چاہئے۔
ان واقعات کا دوسرا اور حساس ترین پہلو یہ بھی ہے کہ ان تربیت یافتہ افراد میں غیر ملکی ایجنٹ بھی ہیں۔ بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کرےگا۔ وزیر داخلہ کے بقول بعض مقامات سے اسرائیل ساختہ اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے کارندے بھی ملک میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی پورٹ سے نیٹو کے کئی لوڈ کنٹینرز غائب ہونے کی خبریں بھی آئی تھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کنٹینرز میں جدید اسرائیلی اور امریکی اسلحہ بھاری مقدار میں کراچی کی کمین گاہوں میں پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں اگر آخری حل کے طور پر فوج براہ راست مداخلت کرتی ہے تو اسے یہاں ایک مشکل صورتحال سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ گنجان آباد شہری علاقوں میں کرائے کے تربیت یافتہ غنڈوں سے فوج کا مقابلہ فوج سمیت ملک کی عالمی ساکھ کےلئے بھی نقصان دہ ہوگا۔ بہر حال یہ ملک سمیت جمہوریت کےلئے بھی کڑے امتحان کے دن ہیں۔ اب صدر اور وزیراعظم‘ رحمان ملک پر انحصار کے دائرے سے باہر نکلیں اور قومی سیاسی رہنماﺅں سے مشاورت کرکے اس خونریزی کو فوری روکیں۔ سیاست کی یہ جنگ اور مفادات کا یہ کھیل اب ختم ہوجانا چاہئے۔
کراچی ہمارے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ملک کی معیشت میں بھی اس کی حیثیت نہایت اہم ہے۔ اب تک یہی ملک کی واحد فعال بندرگاہ ہے اس لئے عالمی سطح پر پاکستان کے ٹریڈ کا سارا دارومدار کراچی پر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پورے ملک سے ہر زبان بولنے والے آباد ہیں‘ یہاں کی فیکٹریاں اور تجارتی مراکز ملک بھر کے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ کراچی کو اسی لئے غریب پرور شہر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ جسے کہیں روزگار یا مزدوری نہیں ملتی تھی وہ کراچی چلا آتا تھا اور یہ شہر ایسے غریب الدیار لوگوں کو ماں کی طرح اپنے دامن میں سمیٹ لیتا تھا۔ کراچی کی یہ حیثیت پاکستان مخالف قوتوں کی نظر میں ہے اس لئے اس ملک کی سلامتی کے دشمن اب کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہیں۔
ویسے تو شہر قائد گذشتہ کئی عشروں سے بدامنی، لسانی اور نسلی فسادات کی زد میں ہے مگر حالیہ دنوں میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہاں کی سڑکیں، مارکیٹ اور رہائشی علاقوں سے بے گناہوں کے لاشے نہ اُٹھتے ہوں۔ رمضان کے مقدس دنوں میں بھی ہزاروں اموات واقع ہوچکی ہیں، بوری بند لاشیں پیغامات کےساتھ سڑکوں پر پڑی ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخریب کاروں نے مختلف علاقوں میں باقاعدہ عقوبت خانے بنا رکھے ہیں جہاں لوگوں کو اغواءکر کے انہیں اذیت سے گزار کر بے رحمی سے ہاتھ پاﺅں کاٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ایسا کرنےوالے خود کو انسان سمجھتے ہیں۔ ہم نے تاتاریوں، چنگیزیوں اور نازیوں کے مظالم کی داستانیں سنی تھیں مگر کیا خبر تھی کہ عروس البلاد کی آستینوں میں ان سے بھی بڑے سانپ پل رہے ہیں اور شہر قائد میں ان سے بھی شرمناک مظالم کی داستانیں دہرائی جارہی ہیں۔ لاقانونیت سمیت قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار اور بھتہ خوری کا فوری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کاروباری مراکز بند ہوگئے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر طرف خوف کا عالم ہے باہر نکلنے والا سلامتی سے گھر واپس آنے کی امید نہیں رکھ سکتا۔ مائیں اپنے پیاروں کو سکول، کالج بھیجنے سے گھبراتی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جو کسی بھی معاشرے کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ کراچی جیسے اہم صنعتی اور تجارتی شہر میں پہلے ہی توانائی کے بحران نے کاروباری حجم کو کم کردیا تھا اب جو کسر رہتی تھی وہ اس خونی لہر نے پوری کردی۔ گذشتہ چند دنوں میں سرمایہ دار یہاں سے متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال حتی کہ بنگلہ دیش میں منتقل ہوچکے ہیں۔
موجودہ حکومت اس سارے خونی کھیل میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ حکومت یا تو صلاحیت سے عاری ہے یا پھر ارادے اور نیک نیتی کا فقدان ہے۔ دونوں صورتوں میں اسکا جرم ناقابل معافی ہے۔ حالیہ واقعات میں اسکی عدم فعالیت تو ناقابل معافی قومی جرم ہے۔ اب تک کے حالات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت اپنی سیاسی ساکھ اور مستقبل بچانے کی فکر میں ملک کے کئی اداروں کو تباہ کرچکی ہے۔ کراچی کے مسئلے میں بھی حکومت گومگو کا شکار ہے۔ کراچی پر متحدہ کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ اب تک یہ جماعت حکومت میں شامل رہی ہے دوسرے نمبر پر کچھ علاقے اگر اے این پی کے زیر اثر ہیں تو وہ بھی بدستور حکومت کی حلیف جماعت ہے۔ تیسرا نمبر حکومت کی اپنی پارٹی ”پی پی“ کا ہے۔ لیاری جیسے بدنام علاقوں میں اسکی اپنی عملداری ہے، کہا جاتا ہے کہ ان تینوں جماعتوں نے حسب ضرورت اور حسب استطاعت اپنے اپنے علاقوں میں گینگ بنا رکھے ہیں۔ یہ گینگ دراصل جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہیں جو سیاسی چھتریوں کے نیچے اپنے مقاصد کی کھلم کھلا تکمیل کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں عام طور پر پولیس حالات پر قابو پاسکتی ہے لیکن کراچی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ پولیس جانبدار سیاسی بھرتیوں سے بھری ہوئی ہے اس لئے غیر موثر ہوچکی ہے۔ اسکی ایک واضح مثال 12 مئی کا واقعہ ہے جب تخریب کار دن دہاڑے لاشیں گرا رہے تھے، آگ لگا رہے تھے اور کنٹینر کھڑے کر کے پورے شہر کو مفلوج کیا جا رہا تھا مگر پولیس ہمیں کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
اب اگر عدالت عظمیٰ نے قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایک مراسلے پر سووموٹو ایکشن لے لیا ہے تو یہ اس پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ بالخصوص تینوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہونےوالے جرائم پیشہ تربیت یافتہ افراد کی چھان بین ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں پر عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں اور فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں انہیں فوری کیفر کردار کو پہنچانا چاہئے۔
ان واقعات کا دوسرا اور حساس ترین پہلو یہ بھی ہے کہ ان تربیت یافتہ افراد میں غیر ملکی ایجنٹ بھی ہیں۔ بھارت اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی پوری پوری کوشش کرےگا۔ وزیر داخلہ کے بقول بعض مقامات سے اسرائیل ساختہ اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے کارندے بھی ملک میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی پورٹ سے نیٹو کے کئی لوڈ کنٹینرز غائب ہونے کی خبریں بھی آئی تھیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کنٹینرز میں جدید اسرائیلی اور امریکی اسلحہ بھاری مقدار میں کراچی کی کمین گاہوں میں پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورت میں اگر آخری حل کے طور پر فوج براہ راست مداخلت کرتی ہے تو اسے یہاں ایک مشکل صورتحال سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ گنجان آباد شہری علاقوں میں کرائے کے تربیت یافتہ غنڈوں سے فوج کا مقابلہ فوج سمیت ملک کی عالمی ساکھ کےلئے بھی نقصان دہ ہوگا۔ بہر حال یہ ملک سمیت جمہوریت کےلئے بھی کڑے امتحان کے دن ہیں۔ اب صدر اور وزیراعظم‘ رحمان ملک پر انحصار کے دائرے سے باہر نکلیں اور قومی سیاسی رہنماﺅں سے مشاورت کرکے اس خونریزی کو فوری روکیں۔ سیاست کی یہ جنگ اور مفادات کا یہ کھیل اب ختم ہوجانا چاہئے۔