سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے رہنما میاں محمد نوازشریف نے اپنی ابتدائی سیاست کاآغاز لاہور سے کیا۔ ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے نواز شریف کرکٹ اور اچھی گاڑیوں کے دلدادہ تھے لیکن ملکی سیاست میں پہلی بار وہ اس وقت منظر عام پر آئے جب 1980میں انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد میاں صاحب نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا اور1985سے 1990تک پنجاب کی وزارت اعلی کے منصب پر فائز رہے۔ اس کے بعد 1990میں ہی میاں نوازشریف پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم بن گئے۔ بعدازاں 1997کے عام انتخابات میں میاں صاحب دو تہائی اکثریت لینے میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس دوران نوازشریف جلا وطن ہوگئے اور پھر2007میں پاکستان واپس آگئے اور 2013کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے تیسری مرتبہ ملک کے وزیرِ اعظم بنے۔ میاںنواز شریف علاج کی غرض سے نومبر 2019میں لندن چلے گئے بعدازاں ایک بار پھر لندن سے سعودی عرب آئے اور وہاں عمرہ ادا کیا۔ اس کے بعد دبئی سے خصوصی پرواز کے ذریعے 21اکتوبر 2023کو وطن عزیز واپس آگئے ۔ میاں صاحب کی واپسی ہوئی توان کی غیر ملکی موجودگی کے دوران پاکستان میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔2024کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کواپنی توقع سے کم سیٹیں حاصل ہوئی یوں سمجھ لیں مطلوبہ انتخابی نتائج نہ آنے کے بعد میاں نواز شریف نے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم کیلئے آگے کردیا لیکن سیاست میں اپنے کردار کو ختم کرنے کے بجائے انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے اپنی بیٹی مریم نوازشریف کو منتخب کیا جس کے ذریعے وہ وقتا فوقتا قومی سیاست میں ان رہے اگرچہ وہ بڑی جلاوطنی کے بعد
پاکستان آئے تھے میاں صاحب کے اس فیصلے کے بعد بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اب میاں صاحب سیاست سے کنارہ کش ہورہے ہیں تاہم میاں صاحب نے پیچھے بیٹھ کر مریم نواز کی سیاسی اور نظام حکومت چلانے میں رہنمائی کی میاں صاحب نے ہی انہیں پنجاب کی وزارت اعلی چلانے کا ہنر سکھایا یہ میاں نوازشریف کی سیاسی تربیت کا ہی اثر ہے کہ آج مریم نواز پنجاب کی سب سے کامیاب خاتون وزیراعلی ثابت ہوچکی ہیں بلکہ ان کا سفر صرف وزیراعلی تک محدود نہیں رہناچاہیے انہیں پاکستان کا وزیراعظم بننے کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ میاں نوازشریف سیاست میں واپسی کافیصلہ وزیراعظم بننے کیلئے نہیں بلکہ قومی مسائل کو حل کرنے کیلئے کیاہے لہذا میاں صاحب چاہتے ہیںکہ بلوچستان اور کے پی کے کے مسائل حل ہوں ملک میں خوشحالی آئے عوام کو بنیادی سہولتیں میسر ہوں بہرحال میاں نوازشریف نے ایک بار پھر سیاست میں انٹری دیدی ہے نواز شریف کا یہ امراس طرف اشارہ کررہاہے کہ میاں صاحب نہ صرف اپنی پارٹی کو فعال اور ملک کی سب سے بڑی جماعت بناناچاہتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے آگے بڑھ کرکردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں میاں نوازشریف کی سیاست میں واپسی خوش آئند ہے مجھے توقع ہے کہ نوازشریف صاحب مزید فعال ہوکر قومی سیاست میں مثبت کردار کرتے ہوئے تمام تصفیہ طلب سیاسی ومعاشی مسائل حل کرنے کیلئے اپنا اہم کردار اداکریں گے۔ ویسے پاکستان کی سیاست اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں لوگ پھانسی تو چڑھ سکتے ہیں لیکن ان کی سیاست یا پھر ان کے سیاست میں کردار کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔میرے خیال سے جس طرح آج تک ذوالفقار علی بھٹو اورعمران خان سیاست سے آوٹ نہیں ہو سکے اسی طرح میاں نواز شریف بھی پاکستان کی سیاست سے کبھی آوٹ نہیں ہونگے بلکہ ان کاکردار ہماری سیاست میں شامل رہے گا۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد اس بات کا قوی امکان ظاہر کیاجارہاتھا وہ وطن واپس کر چوتھی مرتبہ وزیرِاعظم بنیں گے وطن آنے کے بعد ان کے ساتھ جو معاملات ہوئے وہ بھی سب کے سامنے ہیں نوازشریف میرٹ پر وزیراعظم بننا چاہتے ہیں جب ان کی پارٹی کو انتخابات میں اکثریت حاصل نہ ہو سکے تو انہوں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کی خواہش ظاہر کی جوان کے اندر موجود اصولی سیاست کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے۔ وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ خود میاں صاحب کا اپنا تھا اوروقت نے ثابت کیا کہ نواز شریف کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔ چونکہ اس سے قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کی اتحادی حکومت تھی اور اس قبل میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کیساتھ وزیراعظم رہ چکے تھے لہذا وہ ایسی حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہ رہے تھے جو مخلوط طرز کی ہو اور ہر وقت بلیک میلنگ کی تلوار ان کے سر پر لکٹی رہے ۔ اصل مسئلہ یہ تھا انتخابی نتائج سامنے آچکے تھے اور میاں صاحب جس قسم کی حکومت قائم کرناچاہتے تھے اس وقت اسلام آباد میں ویسی حکومت کابننا مشکل ہی ناممکن بھی تھاکیونکہ اس وقت حالات ایسے ہوچکے تھے کہ اسلام آباد میں عمران خان یا نواز شریف کی نہیں بلکہ کسی اور کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو انہیں میسر آگئی اور میاں صاحب یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ اس وقت اسلام آباد میں ان کیلئے ماحول مناسب نہیں ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کاکہناتھا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن)کو اپوزیشن میں بیٹھواناچاہتے تھے اور انہوں نے یہ فیصلہ بھی کرلیاتھا لیکن پھر کچھ حلقے اس معاملے میں شامل ہوئے اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ میاں صاحب کو مرکز میں پیپلز پارٹی کی شمولیت پر اعتبار نہیں تھا جس پر پارٹی کے کچھ طاقتور لوگ متحرک ہوئے اور انہوں نے میاں نوازشریف پر اپنافیصلہ تبدیل کرنے کیلئے دبا بڑھایا اور میاں چونکہ حالات کو بھانپ چکے تھے اس لئے وہ پارٹی رہنماں کی مشاورت سے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کیلئے راضی ہوگئے۔میرے خیال اس وقت میاں صاحب کی شاید سوچ یہ تھی کہ وہ خود چاہے سیاست میں رہیں یا نہ رہیں بہرحال ان کی جماعت اور قریبی لوگوں کو ضرور اقتدار میں رہناچاہیے تاکہ عملی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کو مضبوط کیاجاسکے اور ان کا یہ فیصلہ بھی درست ثابت ہوا۔ میں سمجھتاہوں کہ میاں صاحب اپنے بیانیہ پر آج بھی قائم ہے اور وہ اصولوں پر سمجھوتہ کبھی نہیں کریں گے ۔
میاں نوازشریف کی سیاست میں واپسی خوش آئند
Apr 25, 2025