سید محمد حبیب اللہ شاہ ضیاء

Apr 25, 2025

ڈاکٹر ضیاء الحق قمر


ڈاکٹر ضیاء الحق قمر
آپ 1892ء میں موضع دوداسن پائین تحصیل راجوری، مقبوضہ کشمیر میں حاجی بابا سید نوران شاہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کشمیر کے ایک معروف روحانی بزرگ تھے۔ سید صاحب نجیب الطرفین تھے ان کے ددھیال اور ننھیال دونوں صاحب نسبت خانوادے تھے۔ ان کی تعلیم کا آغاز اپنے نانا پیر سید محمود شاہ قادری سے ہوا،آپ نے ان سے ناظرہ قرآن کریم پڑھا۔ پھر راجوری شہر میں ماسٹر بشن داس سے اردو کی ابتدائی تعلیم حاصل کی،اس وقت ان علاقوں میں شخصی مدارس کا رواج تھا اس لیے شاہ صاحب نے اس کے بعد موضع کنیاں میں مولوی محمد سعید سے چند پارے ترجمہ قرآن کریم پڑھنے کے بعد ان کی اجازت و تحریک پر بالاکوٹ میں مولانا محمد اسحاق مانسہروی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے بنیادی کتب پڑھیں۔ پھر فارسی زبان وادب سے شناسائی کے لیے گلستان و بوستان پڑھنے کے لیے موضع بگھیاں تشریف لے گئے جبکہ علم الصرف اور علم النحو کی ابتدائی کتب مولوی عبدالرشید مظفر آبادی سے پڑھیں۔ اس فن کی منتہی کتب کے لیے مولوی کریم بخش سے کسب فیض کے لیے سنہری مسجد لاہور تشریف لے گئے ، کچھ عرصہ مدرسہ نعمانیہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ اس کے بعد علوم عقلیہ میں کسب کمال کے لیے 1929ء میں جامعہ فتحیہ اچھرہ میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ نے دو سال تعلیم حاصل کی،جامعہ فتحیہ میں ان کے ہم سبقوں میں سید عبدالرزاق اور عبدالرحمن پونچھوی بھی تھے، آپ اس دوران مولانا سید دوران شاہ ہزاروی،حافظ حسین احمد اور آسمان علم کے مہر منیر مولانا مہر محمد اچھروی سے مستفید ہوئے۔ اپنے تحصیل علم کے سفر کے دوران سید صاحب نے درس گاہ عالیہ الور شریف اور دارالعلوم ڈیرہ دون سے بھی کسب فیض کیا آپ نے ان تمام مدارس کے اساتذہ فن سے مستفید ہوتے موقوف علیہ تک تعلیم کی تکمیل کی جبکہ جامعہ حزب الاحناف لاہور سے دورہ حدیث شریف کی سعادت حاصل کی۔ 
سید حبیب اللہ شاہ ضلع راجوری میں تحریک آزادی کشمیر کے سرخیل رہے۔جموں کی عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک ہو یا وہاں ایک ڈوگرہ فوجی کی طرف سے قرآن کریم کی بے حرمتی کے واقعہ پر ریاست گیر احتجاج، آپ ہر موقع پر نمایاں انداز میں متعصب ریاستی انتظامیہ اور اس کے آمر ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ آپ کی انھی خدمات پر رئیس الاحرار چودھری غلام عباس نے انھیں صدائے کوہستانی یعنی شورش جبالی کا خطاب دیا۔ انھوں نے ڈوگرہ مقبوضہ علاقہ میں تو اپنا قلمی،تحریری اور عملی جہاد جاری رکھا ہی تھا لیکن بیرون کشمیر لوگوں کو ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم سے آگاہ کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ آپ نے اس ضمن میں تحریک خلافت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملے انھوں نے آپ کی ملاقات مفکر احرار چودھری افضل حق سے کروائی،1931ء کی تحریک کشمیر میں مجلس احرار اسلام نے ڈوگرہ فوج اور انگریز استعمار ہر دو کو ناکوں چنے چبوائے تھے، اس ملاقات میں شاہ صاحب نے انھیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
آپ نے ایک جید عالم دین اور مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ انقلابی شاعر کی حیثیت سے بھی بڑا نام کمایا۔گوجری،اردو اور پنجابی زبان میں ان کا عارفانہ اور انقلابی کلام آج بھی ریاستی حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف لوگوں کی رہنمائی کا کام کر رہا ہے۔ آپ اتنے جری و بہادر تھے کہ ایک مرتبہ گورنر بلدیوسنگھ پٹھانیہ کی موجودگی میں ہونے والی تقریب جس میں مہمان خصوصی مہاراجہ ہری سنگھ تھا،آپ نے اس کے سامنے بھی کلمہ حق کی ادائیگی میں کوئی مداہنت نہیں دکھائی بلکہ اپنے کلام میں انتظامیہ کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا پردہ فاش کیا۔ ان کا کلام تین زبانوں میں ہے جبکہ آپ صاحب ہفت زبان تھے، سید صاحب عربی،فارسی،اردو، پنجابی،سنسکرت،ڈوگری اور پوربی یعنی سات زبانوں سے شناسا تھے۔ آپ نے اپنی گوناگوں تحریکی، علمی اور اصلاحی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے بھی دامن جوڑے رکھا۔ گردش کشمیر، گل دستہ اشعار فی وصف احمد المختار صلی اللہ علیہ۔وسلم مع تذکرۃ الابرار اور سی حرفی شاہ حبیب ان کی علمی یادگاریں ہیں۔ شاہ صاحب نے 1947ء میں پاکستان ہجرت کی پھر اپنے والد گرامی کی ہدایت پر تحریک آزادیِ کشمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے واپس مقبوضہ علاقہ کو لوٹ گئے۔ 1965ء میں دوباہ اپنے آبائی علاقے راجوری سے ہجرت کے بعد چھمب آزاد کشمیر کے معروف گاؤں بانیاں میں قیام پذیر ہوئے اور یہیں 20 جنوری 1994ء کو اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہوئے۔ انھوں نے عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے مسجد و خانقاہ تعمیر کروائی اور یہیں امانتا آسودہ خاک ہیں۔ ان کی وصیت ہے کہ آزادیِ کشمیر کے بعد مجھے آبائی علاقے کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔  
سید محمد حبیب اللہ شاہ کی جدوجہد آزادی میں نمایاں خدمات پر حکومت آزاد جموں و کشمیر نے ایک پروقار تقریب منعقدہ 24 اکتوبر 1989ء میں انھیں طلائی تمغا سے نوازا۔ آپ کی تعمیر کردہ مسجد و مدرسہ اور خانقاہ کی ذمہ داری ان کے صاحبزادے و سجادہ نشین سید ضیاء الحسنین نسیم (چیئرمین علماء و مشائخ بورڈ، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس)کے سپرد ہے۔ صاحبزادہ صاحب عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے شاہ حبیب ویلفیئر ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے بھی کوشاں ہیں۔

مزیدخبریں