صلہ: احسان، محبت اور قربت کا آئینہ 

Apr 25, 2025

فرقان کاظم 

فرقان کاظم
Kazimfurqan72@gmail.com
صلہ، انسانی تعلقات، اخلاقیات، روحانیت، اور معاشرتی ہم آہنگی کا ایک بنیادی تصور ہے۔ لغوی معنوں میں صلہ کا مطلب ہے "بدلہ" یا "جواب میں دیا جانے والا عمل"، لیکن اخلاقی و سماجی تناظر میں صلہ کی وسعت صرف مادی انعام تک محدود نہیں بلکہ اس میں خلوص، محبت، خیر خواہی، اور احسان کے جذبے کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ صلہ دراصل ایک ایسا عمل ہے جو کسی نیکی، حسن سلوک، یا احسان کے جواب میں خیر اور بھلائی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ یہ انسانی معاشرت کا وہ پہلو ہے جو رشتوں کو مضبوط، دلوں کو قریب اور معاشرے کو پرامن اور خوشحال بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں صلہ کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ھل جزاء الاحسان الا الاحسان" یعنی "نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے" (سورۃ الرحمن: 60)۔ اس آیت میں صلہ کے اخلاقی اصول کو ایک جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اس کا فطری جواب یہ ہونا چاہیے کہ آپ بھی اس کے ساتھ نیکی کریں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی معاشرہ قائم ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں صلہ رحمی، صلہ احسان، اور صلہ محبت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ آپ  نے فرمایا: "جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں برکت ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔" (بخاری و مسلم)
صلہ کی ایک بڑی اور اہم قسم "صلہ رحمی" ہے، یعنی رشتہ داروں سے اچھے تعلقات قائم رکھنا، ان کی خبرگیری کرنا، ان کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ موجودہ دور میں جہاں مادی دوڑ نے انسان کو خود غرض اور مفاد پرست بنا دیا ہے، وہاں صلہ رحمی جیسے اقدار کو زندہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معمولی باتوں پر بہن بھائیوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، وراثت کے مسائل پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، اور خاندان کے افراد ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ ایسے میں صلہ رحمی کا عمل ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتا ہے اور خاندانوں کو دوبارہ قریب لے آتا ہے۔
صلہ صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر معاشرتی فریم ورک ہے۔ جب کوئی انسان آپ کے ساتھ بھلائی کرے، آپ کی مدد کرے یا کسی مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دے، تو اس کے جواب میں صلہ دینا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ روحانی ترقی کا بھی ذریعہ ہے۔ صلہ دینے سے انسان میں شکرگزاری، انکساری، اور محبت جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی انسان صرف لینے والا بن جائے اور دینے کا جذبہ نہ رکھے، تو وہ بتدریج خود غرضی اور بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی رویہ آج معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے رحمی، لاتعلقی اور سردمہری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اسلامی معاشرے میں صلہ کا تصور صرف فرد کی سطح تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اس کا اثر دیکھا جاتا ہے۔ اگر حکومتیں، ادارے، اور تنظیمیں عوام کے ساتھ حسن سلوک، عدل، اور مساوات کا صلہ دیں تو عوام میں وفاداری، ایمانداری، اور محنت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اسی طرح اگر استاد طالبعلم کی محنت کا صلہ تعریف، رہنمائی، اور تعاون سے دے، تو طالبعلم مزید محنت کرتا ہے۔ والدین اگر بچوں کے اچھے رویے کا صلہ محبت، وقت، اور حوصلہ افزائی کی صورت میں دیں تو خاندان میں محبت اور اعتماد کی فضا قائم رہتی ہے۔
صلہ کا ایک اور پہلو "احسان کا بدلہ" ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو اخلاقاً، شرعاً اور معاشرتاً اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم کسی کا احسان ماننے کی بجائے اسے نظر انداز کریں یا اس کے ساتھ بدسلوکی کریں تو یہ نہ صرف اخلاقی گراوٹ ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی ہے۔ احسان کا بدلہ دینا کوئی فرض نہیں بلکہ ایک اعلیٰ اخلاق ہے جو انسان کو بلند مقام عطا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے، تم بھی اس کے ساتھ بھلائی کرو؛ اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو کم از کم اس کے لیے دعا کرو۔"
جدید دور میں جہاں معاشرتی اقدار تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں، صلہ جیسی خوبصورت روایت کو زندہ رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا، فاسٹ لائف، اور خودمرکزی طرزِ زندگی نے انسانوں کو دوسروں کی مدد یا جواب میں خیر دینے کے جذبے سے دور کر دیا ہے۔ آج کا انسان اکثر یہ سوچتا ہے کہ "مجھے کیا فائدہ ہوگا؟"۔ اس خودغرض سوچ نے صلہ کے جذبے کو کمزور کر دیا ہے۔ حالانکہ صلہ صرف لینے کا نہیں، بلکہ دینے کا نام ہے، اور یہ وہی لوگ دے سکتے ہیں جو دل کے امیر ہوں، جن کے اندر جذبہ، ظرف اور خلوص ہو۔
صلہ کا تصور صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بھی موجود ہے۔ جب بندہ رب کی اطاعت کرتا ہے، اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، اور خلقِ خدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ صلہ کا معاملہ کرتا ہے۔ وہ اسے دنیا و آخرت کی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ بعض اوقات انسان ایک چھوٹا سا عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کا بڑا صلہ عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان نیکی کو کبھی ضائع نہیں سمجھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہر عمل کا صلہ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔
صلہ کے برعکس رویہ "قطع تعلقی" یا "بے اعتنائی" ہے، جو کہ نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ معاشرے کو بھی توڑ دیتا ہے۔ جو لوگ صلہ نہیں دیتے، ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ تنہا ہو جاتے ہیں، اور معاشرتی ناپسندیدگی کا شکار بن جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: "قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔" (بخاری)۔ اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صلہ دینا صرف اخلاقی نہیں بلکہ دینی ذمہ داری بھی ہے۔
بچوں کی تربیت میں بھی صلہ کا تصور بہت اہم ہے۔ اگر والدین بچوں کی اچھی عادتوں، محنت، ایمانداری یا ادب کا صلہ محبت، تحفہ، یا تعریفی کلمات سے دیں تو بچے مثبت رویے کو اپناتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بچوں کی محنت یا نیکی کا اعتراف نہ کیا جائے تو وہ بددل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے تعلیم و تربیت میں صلہ کا عمل کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
صلہ ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے، اور معاشرے میں بھائی چارے، ہمدردی اور اخوت کو فروغ دیتا ہے۔ یہ محض ایک دینی یا اخلاقی عمل نہیں بلکہ ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں صلہ کا رواج ہو، وہاں بدگمانی، حسد، اور نفرت کی جگہ نہیں بچتی۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کی خیر چاہتے ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، اور نیکیوں کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔
آخر میں، ہمیں چاہیے کہ ہم صلہ کے جذبے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ چاہے وہ صلہ رحمی ہو، صلہ احسان ہو، یا صلہ محبت — ہر سطح پر ہم اس جذبے کو زندہ کریں۔ ہم دوسروں کے ساتھ نیکی کریں، ان کے اچھے کاموں کا جواب محبت اور خلوص سے دیں، اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس خوبصورت روایت سے روشناس کرائیں۔ یاد رکھیں، صلہ دینے والا ہمیشہ بلند رہتا ہے، کیونکہ وہ صرف دوسروں کو نہیں دیتا بلکہ اپنے دل کو بھی سیراب کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتا ہے۔
صلہ، انسانی تعلقات، اخلاقیات، روحانیت، اور معاشرتی ہم آہنگی کا ایک بنیادی تصور ہے۔ لغوی معنوں میں صلہ کا مطلب ہے "بدلہ" یا "جواب میں دیا جانے والا عمل"، لیکن اخلاقی و سماجی تناظر میں صلہ کی وسعت صرف مادی انعام تک محدود نہیں بلکہ اس میں خلوص، محبت، خیر خواہی، اور احسان کے جذبے کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ صلہ دراصل ایک ایسا عمل ہے جو کسی نیکی، حسن سلوک، یا احسان کے جواب میں خیر اور بھلائی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ یہ انسانی معاشرت کا وہ پہلو ہے جو رشتوں کو مضبوط، دلوں کو قریب اور معاشرے کو پرامن اور خوشحال بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں صلہ کو بہت اہم مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ھل جزاء الاحسان الا الاحسان" یعنی "نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے" (سورۃ الرحمن: 60)۔ اس آیت میں صلہ کے اخلاقی اصول کو ایک جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اس کا فطری جواب یہ ہونا چاہیے کہ آپ بھی اس کے ساتھ نیکی کریں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلامی معاشرہ قائم ہے۔ نبی کریم ? کی حیاتِ طیبہ میں صلہ رحمی، صلہ احسان، اور صلہ محبت کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ آپ   نے فرمایا: "جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر دراز ہو اور اس کے رزق میں برکت ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔" (بخاری و مسلم)
صلہ کی ایک بڑی اور اہم قسم "صلہ رحمی" ہے، یعنی رشتہ داروں سے اچھے تعلقات قائم رکھنا، ان کی خبرگیری کرنا، ان کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ موجودہ دور میں جہاں مادی دوڑ نے انسان کو خود غرض اور مفاد پرست بنا دیا ہے، وہاں صلہ رحمی جیسے اقدار کو زندہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معمولی باتوں پر بہن بھائیوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، وراثت کے مسائل پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، اور خاندان کے افراد ایک دوسرے سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ ایسے میں صلہ رحمی کا عمل ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتا ہے اور خاندانوں کو دوبارہ قریب لے آتا ہے۔
صلہ صرف رشتہ داروں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر معاشرتی فریم ورک ہے۔ جب کوئی انسان آپ کے ساتھ بھلائی کرے، آپ کی مدد کرے یا کسی مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دے، تو اس کے جواب میں صلہ دینا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ روحانی ترقی کا بھی ذریعہ ہے۔ صلہ دینے سے انسان میں شکرگزاری، انکساری، اور محبت جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی انسان صرف لینے والا بن جائے اور دینے کا جذبہ نہ رکھے، تو وہ بتدریج خود غرضی اور بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی رویہ آج معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے رحمی، لاتعلقی اور سردمہری کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اسلامی معاشرے میں صلہ کا تصور صرف فرد کی سطح تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اس کا اثر دیکھا جاتا ہے۔ اگر حکومتیں، ادارے، اور تنظیمیں عوام کے ساتھ حسن سلوک، عدل، اور مساوات کا صلہ دیں تو عوام میں وفاداری، ایمانداری، اور محنت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اسی طرح اگر استاد طالبعلم کی محنت کا صلہ تعریف، رہنمائی، اور تعاون سے دے، تو طالبعلم مزید محنت کرتا ہے۔ والدین اگر بچوں کے اچھے رویے کا صلہ محبت، وقت، اور حوصلہ افزائی کی صورت میں دیں تو خاندان میں محبت اور اعتماد کی فضا قائم رہتی ہے۔
صلہ کا ایک اور پہلو "احسان کا بدلہ" ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو اخلاقاً، شرعاً اور معاشرتاً اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم کسی کا احسان ماننے کی بجائے اسے نظر انداز کریں یا اس کے ساتھ بدسلوکی کریں تو یہ نہ صرف اخلاقی گراوٹ ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی ہے۔ احسان کا بدلہ دینا کوئی فرض نہیں بلکہ ایک اعلیٰ اخلاق ہے جو انسان کو بلند مقام عطا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے، تم بھی اس کے ساتھ بھلائی کرو؛ اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو کم از کم اس کے لیے دعا کرو۔"
جدید دور میں جہاں معاشرتی اقدار تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں، صلہ جیسی خوبصورت روایت کو زندہ رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا، فاسٹ لائف، اور خودمرکزی طرزِ زندگی نے انسانوں کو دوسروں کی مدد یا جواب میں خیر دینے کے جذبے سے دور کر دیا ہے۔ آج کا انسان اکثر یہ سوچتا ہے کہ "مجھے کیا فائدہ ہوگا؟"۔ اس خودغرض سوچ نے صلہ کے جذبے کو کمزور کر دیا ہے۔ حالانکہ صلہ صرف لینے کا نہیں، بلکہ دینے کا نام ہے، اور یہ وہی لوگ دے سکتے ہیں جو دل کے امیر ہوں، جن کے اندر جذبہ، ظرف اور خلوص ہو۔
صلہ کا تصور صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بھی موجود ہے۔ جب بندہ رب کی اطاعت کرتا ہے، اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، اور خلقِ خدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ صلہ کا معاملہ کرتا ہے۔ وہ اسے دنیا و آخرت کی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ بعض اوقات انسان ایک چھوٹا سا عمل کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کا بڑا صلہ عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان نیکی کو کبھی ضائع نہیں سمجھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہر عمل کا صلہ اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔
صلہ کے برعکس رویہ "قطع تعلقی" یا "بے اعتنائی" ہے، جو کہ نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ معاشرے کو بھی توڑ دیتا ہے۔ جو لوگ صلہ نہیں دیتے، ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ تنہا ہو جاتے ہیں، اور معاشرتی ناپسندیدگی کا شکار بن جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: "قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔" (بخاری)۔ اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صلہ دینا صرف اخلاقی نہیں بلکہ دینی ذمہ داری بھی ہے۔
بچوں کی تربیت میں بھی صلہ کا تصور بہت اہم ہے۔ اگر والدین بچوں کی اچھی عادتوں، محنت، ایمانداری یا ادب کا صلہ محبت، تحفہ، یا تعریفی کلمات سے دیں تو بچے مثبت رویے کو اپناتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بچوں کی محنت یا نیکی کا اعتراف نہ کیا جائے تو وہ بددل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے تعلیم و تربیت میں صلہ کا عمل کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
صلہ ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتا ہے، دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے، اور معاشرے میں بھائی چارے، ہمدردی اور اخوت کو فروغ دیتا ہے۔ یہ محض ایک دینی یا اخلاقی عمل نہیں بلکہ ایک معاشرتی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں صلہ کا رواج ہو، وہاں بدگمانی، حسد، اور نفرت کی جگہ نہیں بچتی۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کی خیر چاہتے ہیں، ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، اور نیکیوں کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں۔
آخر میں، ہمیں چاہیے کہ ہم صلہ کے جذبے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ چاہے وہ صلہ رحمی ہو، صلہ احسان ہو، یا صلہ محبت — ہر سطح پر ہم اس جذبے کو زندہ کریں۔ ہم دوسروں کے ساتھ نیکی کریں، ان کے اچھے کاموں کا جواب محبت اور خلوص سے دیں، اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس خوبصورت روایت سے روشناس کرائیں۔ یاد رکھیں، صلہ دینے والا ہمیشہ بلند رہتا ہے، کیونکہ وہ صرف دوسروں کو نہیں دیتا بلکہ اپنے دل کو بھی سیراب کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتا ہے۔

مزیدخبریں