
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
سیاسی درجہ حرارت بدستور نکتہ کھولاﺅ پر ہے۔ ملک میں سیاسی ،معاشی گھٹن اور حبس بدستور برقرار ہے۔ ایسے میں پورے ملک میں عید کا ایک ساتھ ہونا اور امن کا برقرار رہنا بھی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے سے کم نہیں۔ عید گزر گئی، رمضان کے اندر مہنگائی کے جو تھپیڑے تھے وہ بھی واپس لوٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہ مہنگائی جو مصنوعی طور پر کی جاتی ہے۔ جوتوں کپڑوں کے ساتھ وہ اشیائے خورونوش جن کا استعمال زیادہ ہوتاہے جیسے کھجوریں، مشروبات ان کی قیمتوں کو آگ لگ جاتی ہے۔اس مرتبہ کراچی اور لاہور میں یہ رحجان رمضان کے آغاز میں سے درمیان تک دیکھا گیا کہ فروٹ کی خریداری کم کر دی گئی۔ جس سے وہ لوگ ذرا سیدھے راستے پر آ گئے جنہوں نے رمضان کو کمائی کا مہینہ سمجھ کر ریٹ تین گنا کر دیئے۔ رمضان کے وسط میں رمضان سے قبل جیسے تو ریٹ نہیں تھے تاہم کافی کم ضرور ہو گئے تھے۔ صارفین اگر متحد ہو کر کوئی فیصلہ کریں کوئی منصوبہ بندی کریں تو مہنگائی کا توڑ نکالا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس طرح عوام میں شعور کی ایک لہر ضرور پیدا ہوئی ہے۔
رمضان میں کچھ لوگ اپنی ضروریات محدود کر لیتے ہیں۔ بے جا اخراجات نہیں کرتے، کھانا بھی کم کھاتے ہیں اسے بھی بچت کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ کچھ دوست ایسے ہی گپ شپ میں کہہ رہے تھے کہ رمضان کو دوماہ تک محیط کر لیں۔ ایسا صرف لطیفے کی حد تک ہو سکتا ہے۔ ایک طرف تو رمضان میں بچت کی بات ہوتی ہے دوسری طرف ذخیرہ اندوز اور منافع خور سامنے آتے ہیں۔ یہ ایسی مخلوق ہے جس کا پیٹ بھر جاتا ہے نیت نہیں بھرتی۔انسانی راہ میں ایک دینے والوں کو دس گنا ملتا ہے۔ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیا اپنی دولت کو دس گنا کرنے کے چکرمیں عام پاکستانی کی معیشت کونچوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ آج تک جو بھی حکومت آئی ، بڑے بڑے طرم خان آئے، مارشل لا کا کوڑا پکڑے بھی اقتدار میں آئے مگر ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے سامنے سب بے بس ہی رہے۔ ان کا مقابلہ اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ صارفین ہیں، وہ متحد ہو جائیں تو مافیاز راہِ راست پر آ سکتے ہیں۔
کل تک شوگر ملیں چل رہی تھیں۔ آج گندم کی کٹائی مکمل ہوئی ہے۔ چینی اور گندم وافر مقدار میں دستیاب ہونی چاہیے مگر دونوں کی شارٹیج کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس سطح پر ذخیرہ اندوزی حکام بالا کے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ یہ مافیا گندم اور چینی سمگل کرادیتے ہیں ملک میں کمی ہوتی ہے تو د±گنے داموں درآمد کرا لی جاتی ہے۔ حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ عید کے دنوں میں دس روپے کی ہزار والی گڈی 16سو روپے میں فروخت ہوتی رہی۔ نوٹوں کی بھی ذخیرہ اندوزی۔ شوقین قسم کے لوگوں کو نئے نوٹوں کی ضرورت اور تلاش ہوتی ہے۔ ہر سال سٹیٹ بینک عید پر کروڑوں روپے کے نوٹ جاری کرتا ہے۔ اس مرتبہ ایک بھی نیا نوٹ جاری نہیں کیا گیا۔ حکومت کے پاس کاغذ خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ ایسے ہی کنگالی ہے تو نوٹ چھاپنے کا شعبہ بھی پرائیوٹائز کر دیں۔ میں ایسے پبلشر کو جانتا ہوں جو انگریزی کتابوں کو ایسے انداز میں چھاپتا ہے کہ اصل سے بھی زیادہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔ یہ شخص اس طرف کیسے چلا آیا یہ بھی ایک دلچسپی کہانی ہے۔ اس نے جعلی ڈالر چھاپنے کی مشین لگا رکھی تھی۔ کسی وجہ سے چھاپا پڑا تو پکڑا گیا ،کروڑوں مالیت کے ڈالر برآمد ہوئے۔ مقدمہ بنا، ڈالر امریکی سفارتخانے بھجوائے گئے تو اس کی طرف سے جواب آیا کہ یہ اصل ہیں۔ پاکستان میں ایسے ایسے فنکار بھی موجود ہیں۔ یہ شخص پبلی کیشن کے شعبہ میں آیا تو نقل میں مزید کامیاب ٹھہرا۔ جس حکومت کے پاس نوٹ چھاپنے کے لیے کاغذ خریدنے کے پیسے نہیں وہ کیسے دیگر مسائل پر قابو پائے گی۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو دوست ممالک بھی قرض دینے کو تیار نہیں انہیں پتہ ہے کہ قرض پر منافع تو کیا یہ تو اصل زر لوٹانے کے بھی قابل نہیں۔ ہمارے بڑے بڑے وفد بیرون ممالک دوروں پر جاتے ہیں تو وہاں کے حکمران ان سے کنی کتراتے ہیں، منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
حفیظ پاشا ماہر معیشت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشی حالت ایسے ہی دگرگوں رہی تو غربت کی شرح میں مزید دس فیصد اضافہ ہو گا۔ مزید 15ملین لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ اتنی بڑی تعداد بیروزگار ہو کر کیا کرے گی۔ ڈکیتیاں، لوٹا مار کرے گی۔ جب ل±ٹنے والے بھی کنگال ہو جائیں گے تو پھر کیا ہوگا۔ خانہ جنگی اور نوبت بالآخر انسانوں کے انسانوں کو کھانے تک پہنچ جائے گی۔اس کی نوبت آنے سے پہلے ارباب اختیار کو کچھ کر لینا چاہیے۔
قارئین!ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے دنیا بھر کے عالمی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے تقریباً ایک سو پچاس ارب ڈالر قرضے کی مد میں ادا کرنے ہیں۔جن میں سے صرف چائنہ کے تیس ارب ڈالر کا قرضہ شامل ہے۔ان حالات میں یہ کہنا بجا ہوگاکہ ہر پاکستانی کے سر پر اتنے ڈالر قرضہ ہے جتنے اس کے سر پر بال۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ’ٹِنڈ“کروا لینے سے ہمارے قرض خواہ اپنا دیا ہوا قرضہ بھول جائیں گے اور پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان میں بہتری کے آثار کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہے۔قارئین یاد رکھیے کہ بات اب دوا?ں سے بڑھ گئی ہے۔یعنی مرض اب ٹیبلٹس سے ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ فوری طور پر کسی میجر آپریشن کی ضرورت ہے۔مگر ہماری عوام اور ہمارے رہنما?ں کے لچھن دیکھ کر یہ بات یقینا کہی جا سکتی ہے کہ ہم ابھی تک ہوش میں نہیں آئے جبکہ ہمارے جتنے بھی ہمسائے ممالک خطے میں موجود ہیں ان کی معاشی حالت پاکستان کے مقابلے میں بہت ہی بہتر ہے اور یہ بات ہمارے لیے کسی سانحہ سے کم نہیں۔