چینی کی قیمتو ں میں اضا فہ

ہم سب جا نتے ہیں کہ جب بھی رمضا ن آ تا ہے ہما رے ملک میں اشیا ئے خورد و نوش کی قیمتو ں میں کمی کی بجا ئے اضا فہ کر دیا جا تا ہے ہمیشہ کی طر ح اس بار بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل چینی، گھی، آئل، چاول اور چائے کی پتی سمیت مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے چینی کی قیمت 6 روپے فی کلو تک بڑھ گئی ہے 58 روپے میں فروخت ہونیوالی چینی66 روپے کلومیں فروخت ہورہی ہے جبکہ دور دراز علاقوں میں چینی 68 روپے کلو تک فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ چینی کی بو ری 33سو رو پے میں فرو خت ہو رہی ہے اسی طرح گھی کی قیمتوں میں بھی 5 سے 10 روپے فی کلو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے آئل کی قیمت 15 روپے لیٹر بڑھا دی گئی ہے۔رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ شہریوں کیلئے پریشانی کا موجب بن رہا ہے۔ اگر ہم صرف چینی کی قیمتوں میں اضا فے کی با ت کر یں تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔اگر ہم ما ہ جنو ری کا جا ئزہ لیںتو کرشنگ سیزن میں کئی ہفتوں کی تاخیر کے باعث نئی چینی مارکیٹ میں نہ آ سکی جس پر شوگر ڈیلرز نے مصنوعی طور پر سپلائی کم کر کے قیمتوں میں ازخود اضا فہ کر دیا۔ رواں برس پنجاب میں کرشنگ سیزن 30 نومبر کی ڈیڈ لائن کے باوجود شروع نہ ہو سکا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک کسی ایک مل نے اپنا بوائلر آ ن نہیں کیا جس کے نتیجہ میں کرشنگ التوا کا شکار ہو ئی۔ دو سری جانب شوگر ملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے کے لیے جان بوجھ کر کرشنگ سیزن لیٹ کرتے ہیں کیونکہ گنے کی کھڑی فصل کا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹھاس کا لیول زیادہ اور وزن کم ہو جا تا ہے جبکہ کا شتکارمجبوراً اپنی گنے کی فصل بیچ دیتے ہیں تا ہم کرشنگ سیزن تا خیرکے ساتھ شروع ہونے سے اس کے اثرات ما رکیٹ پر پڑنا شروع ہو گئے اور شوگر ڈیلرز نے بھی چینی کی سپلائی میں کمی کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں خود ساختہ اضا فہ کر دیا۔ ہر سال شوگر ڈیلرز گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کرشنگ سیزن کے دوران قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرتے ہیں۔ رواں برس بھی سپلائی کم ہونے کی آڑ میں مصنوعی اضافہ کیا جا رہا ہے حالانکہ شوگر ملز کے پا س وافر ذخائر موجود ہیں اور کئی لاکھ ٹن چینی ملکی ضرورت سے زیا دہ ہے ان حالات میں تھوک کی سطح پر اضافہ نا قابل فہم ہے، اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے غریب عوام کی کمرتوڑ دی ہے۔اب جبکہ چینی کا بحران ایک بار پھر سر اْٹھانے لگا ہے تو اس کے لیے ہمیں اپنی اپنی کمر ضرور کس لینی چاہیے، اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ پیداوار میں کمی اور دوسرا چینی کی برآمدات میں اضافہ۔مارکیٹ میں رواں ماہ چینی کی قیمت 50 روپے فی کلو سے 16روپے کلو اضافے سے 66روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سندھ میں چینی کی قیمت آئندہ آنے والے دنوں میں 80 روپے سے 90 روپے تک پہنچنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ سندھ کی 32 شوگر ملوں میں سے 26 شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ شروع ہوچکی ہے۔ جبکہ اومنی گروپ کے تحت چلائی جانے والی سندھ کی 9 شوگر ملوں میں سے 6 شوگر ملیں ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں بینک اکائونٹس منجمد ہونے کے باعث کرشنگ کا عمل شروع نہیں کرسکی ہیں۔ کرشنگ سیزن میں کئی ہفتوں کی تاخیر کے باعث نئی چینی مارکیٹ میں نہ آ سکی جس پر شوگر ڈیلرز نے مصنوعی طور پر سپلائی کم کر کے قیمتوں میں ازخود اضا فہ کر دیا۔کسانوں کے ان مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے وہ اس فصل سے بدظن ہو گئے ہیں اس کا واضع ثبوت پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی سالانہ رپورٹ ہے جس میں انہوں نے اپنی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ رواں سال گنے کی پیداوار میں کمی کا امکان ہے جس سے چینی کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 14 جبکہ سندھ میں 19 فیصد کمی کا امکان ہے۔ سال 2017 اور 2018 میں گنے کی پیداوار 83 ملین ٹن ہوئی تھی جبکہ 2018 سے 2019 کے سیزن میں 75 ملین ٹن گنا دستیاب ہو گا۔سندھ میں گذشتہ تین سالوں کے دوران فی من گنے کے سرکاری نرخ 182 روپے مقرر کیے جاتے ہیں۔ شوگر ملوں نے پہلے یہ نرخ دینے سے انکار کیا بعد میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر کے سٹے آرڈر کا مطالبہ کیا لیکن عدالت نے مقررہ نرخ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔
اس حوالے سے اگر بھارتی طرز پر ایک میکنزم بنادیا جائے تو ہم کسی بھی سٹیک ہولڈر کی ’’اْجارہ داری ‘‘ سے بچ سکتے ہیں، بھارت میں چینی 35 روپے فی کلو ہے اور گنے کی قیمت 250 روپے فی 40کلوگرام (من) ہے۔ پاکستان کی کرنسی کے حساب سے یہ قیمت 70 اور 500روپے بن جاتی ہے۔بھارت میں ایسا نہیں ہے کہ کوئی شوگر مل اپنی اجارہ داری قائم کرسکے کیونکہ وہاں ساری شوگر ملیں فارمر کوآپریٹو ہیں۔ ایسا پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے لیکن پاکستان میں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مل ایک سو پچیس کروڑ روپے میں لگتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ شوگر مل لگانے میں جو لاگت آتی ہے اسے کم کیا جائے۔ اثاثوں کی قیمتوں کا تخمینہ افراط زر سے منسلک ہے۔اسی لئے جو زیا دہ لا گت لگا تے ہیں وہ اپنی کما ئی کیلئے چینی کو بیرو ن ملک ایکسپورٹ کر تے ہیں ۔ضروت اس امر کی ہے کہ کسانو ں کی فصلو ں کا قبل از کاشت ریٹ مقرر کیا جا ئے اور شو گر ملز ما لکان کو اس بات کا پا بند کیا جا ئے کہ وہ مقررہ ریٹ پر نا صرف گنا خریدیں گے بلکہ بر وقت کرشنگ سیزن شروع کر یں گے اور کاشتکا رو ں کاا ستحصال نہیں کر یں گے ۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے ملک کی 75فیصد آ با دی کا انحصار زراعت اور اس سے وابستہ شعبہ جا ت پر ہے لہذا ہمیں اپنی زراعت پر بھر پور تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔زراعت کی ترقی سے ملک کی معیشت کو سہارا ملنے کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا اور شہروں کے مسائل پر بھی قابو پانے میں آسانی ہوگی۔