غور طلب بات یہ ہے کہ آخر کیوں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ پارہی؟ اس کے لئے خواہشات کی فہرست کے علاوہ شرکاء مذاکرات کے ناموں پر بھی نگاہ ڈالنا مناسب رہے گا۔ افغان حکومت نے مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لئے جو نام دئیے ہیں ان کو لانے لیجانے کے لئے ’’سَالم تانگے‘‘ کی پنجابی اصطلاح کے مصداق پورا جہاز درکار ہے۔ 350 پچاس افراد مذاکرات کے لئے بھجوانے کے افغان حکومت کے اقدام کو پاگل پن کے سوا کون سا نام دیا جائے؟ جنہوں نے دو درجن طالبان سے مذاکرات کرنے تھے۔ تب ہی تو یہ پھبتی کسی گئی کہ یہ مذاکرات ہیں کوئی دعوت ولیمہ نہیں جس کے لئے افغان حکومت نے اتنا بڑا لاؤ لشکر بھجوایا۔ افغان حکومت کے مدمقابل طالبان کا رویہ اور انداز ان کے قدکاٹھ کو مزید بڑھایا گیا جو ان توقعات کے برعکس ہے جن میں یہ خواہش چھپی ہوئی تھی کہ طالبان کی ساکھ، وقار اور عالمی قد کاٹھ کو کم کیاجائے لیکن افغان حکومت کی ’’چول‘‘ نے کام الٹا کردیا۔ چنیدہ افراد کو ایک اتفاق رائے کے عمل کے ذریعے اگر افغان حکومت منتخب کرلیتی اور اسے بھان متی کا کنبہ نہ بناتی تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر اشرف غنی حکومت نے بھی چہیتوں، وفاداروں اور چاپلوسوں کی ظفرموج تیار کی اور روانہ کردی۔ نہ قبیلوں اور نسلوں کی بنیاد پر برادریوں کو ترجیح دی اور نہ ہی کوئی سیاسی فارمولا وضع کیا کہ متعلقہ فریقین پر مشتمل ایک صاحب الرائے اور سمجھدار، سنجیدہ افراد اس عمل میں نمائندگی کرتے تاکہ زخموں سے چور افغانستان کو امن کا مرہم میسر آتا۔
اشرف غنی کی اس دلیل کو کوئی قبول کرنے کوتیار نہیں کہ انہوں نے معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی کی بنیاد پر یہ جہازی لشکر تیار کیا۔ وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اس مقصد کے لئے لویہ جرگہ کی تشکیل طے ہے جس کی رواں ماہ کے آخرتک رونمائی ہونے کا امکان بتایا جاتا ہے۔ تجزیہ کار تنقید کررہے ہیں کہ اشرف غنی کیچالاکی ان کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ وہ اپنی سیاست کے چکر میں ایک نئی مصیبت کا شکار ہوگئے ہیں۔ اپنی طلسمانی فہرست کے ساتھ وہ آخری وقت تک کھیلتے رہے، یہاں تک کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کا نام بھی انہوں نے نکال دیاتھا جو اسی نوعیت کی ماسکو، روس میں ہونے والی بین الافغان کانفرنس میں پہلے شرکت کرچکے تھے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ افغان صدر نے وفد سے خطاب میں متنازعہ باتیں کہہ کر مزید کباڑہ کردیا۔ طے شدہ مذاکرات سے ایک روز قبل انہوں نے یہ ’بڑھک‘ ماری کہ افغان وفد ہی افغانستان اوراس کے عوام کا حقیقی نمائندہ ہے۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ یہاں تک کہا کہ افغان وفد عسکریت پسندوں کو افغان حکومت سے امن مذاکرات پر قائل کرے۔ اشرف غنی کی اس حرکت پر ’’چہ پدی چہ پدی کا شوربہ‘‘ والی بات یاد آگئی۔ اس حماقت کے بعد طالبان کا ردعمل سمجھنے کے لئے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اشرف غنی اینڈکمپنی کو طالبان کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔
صورتحال اور حقائق کو دیکھنے کے بعد یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس عمل کی ناکامی کا ذمہ دار ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کا ٹولہ ہے جس نے اس عمل کو دانستہ اپنی حماقت یا کسی سازش کی بنیاد پر سبوتاژ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ حرکت کرنے کا مقصد مزید وقت کا حصول ہے۔ تین روزہ مذاکرات کا آغاز انیس اپریل سے شروع ہونا تھا جبکہ طالبان کے وضاحتی بیان میں یہ تاریخیں بیس اور اکیس اپریل بتائی گئی ہیں۔ طالبان اپنی وضاحت میں واضح کرچکے ہیں کہ مذاکرات کے میزبان تحریری اورزبانی بتاچکے ہیں کہ وہ افغانستان سے اڑھائی سو افراد کے اتنے بڑے وفد کی میزبانی پر آمادہ نہیں۔ میزبانوں کے حوالے سے طالبان کی وضاحت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی تھی کہ افغان حکومت کی نمائندگی کوئی نہیں کرے گا اور یہ تمام افراد اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کریں گے۔ مذاکرات میں شمولیت ہوئی تو وہ بھی ان کی ذاتی حیثیت میں تصور ہوگی۔ اس بیان میں کہاگیا کہ یہ ایک پہلے سے طے شدہ مذاکراتی مجلس ہے جو دورافتادہ خلیجی ملک میں منعقد ہورہی ہے۔ یہ کابل کے کسی ہوٹل میں ہونیوالی شادی کی تقریب یا دعوت نہیں ہورہی کہ سب کو دعوت نامہ دیا جائے۔ ترجمان طالبان ذبیح المجاہد کے جاری کردہ بیان میں مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری افغان حکومت پر عائد کی گئی۔
زلمے خلیل زاد نے درست کہا تھا کہ جنگ کو پھیلانے سے کچھ حاصل نہیں، یہ کوئی حل نہیں۔ آگ کو بھڑکانے کی ذمہ داری افغان فوج پرہے جس نے آپریشن الخالد کرکے آگ پر تیل پھینکا۔ اس کانتیجہ مزید حملوں اور جانوں کے ضیاع کی صورت نکلا جس میں تین امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے ایک مشکل مرحلے کو نظام الاوقات میں بدلنے کی کوشش کی تاکہ مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہوسکیں۔ اس مقصد کے لئے امریکی فوج کی واپسی کے ایک نظام الاوقات کا بھی خاکہ بننا شروع ہوا۔ وہ جنگ بندی اور بین الافغان سیاسی تصفیہ کے لئے تگ و دومیں تھے۔ افغان حکومت اور طالبان ایک میز پر بیٹھ جاتے تو زلمے خلیل زاد کی یہ ایک بڑی کامیابی تصور ہوتی۔ ان کے روسی ہم منصب نے یہ کام پہلے کردکھایا ہے۔ یہ نسبتاً چھوٹے درجے کا اجلاس تھا جو فروری میں منعقد ہوا تھا۔ زلمے خلیل زاد کے لئے پہلا مرحلہ اب یہ ہوگا کہ وہ تمام فریقین کو واپس امریکی طرف لائیں۔افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تاریخ بھی بدل دی گئی ہے۔ اب یہ انتخاب تیس اپریل کی جگہ بیس جولائی کو ہوں گے اور شاید اٹھائیس ستمبر تک یہ معاملہ چلا جائے۔ طالبان کے ہاتھ سے نکلنے سے زلمے خلیل زاد دو دھاری تلوار کی خود ہی زد میں آچکے ہیں۔ طالبان کی مذاکراتی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے پاس طالبان کو دینے کے لئے ہے ہی کیا؟؟ (ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024