سیاسی اکھاڑے میں جو کھیل جاری ہے وہ عملاً یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور ووٹر کو مار دو’ اگر کوئی جج اپنے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے بدانتظامی کا نوٹس لے بندر بانٹ رکوائے تو قابل گردن زدنی قرار پائے،آزادیٔ اظہار’ جان و مال اور بنیادی حقوق کا تحفظ جمہوریت کا حسن ہے۔ حقوق کی فراہمی جس قدر یقینی ہوگی، وہ جمہوریت اتنی ہی اچھی، خالص اور فعال ہوگی۔ عوام کی خوشحالی، قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے جب یہ مہذب معاشرے میں مجسم ہوتی ہے تو ووٹ کو عزت ملتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جوعوامی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنا آئینی کردار ادا کر رہے ہیں نوازشریف فرماتے ہیں کہ ’ملک میں جمہوریت نہیں، بدترین آمریت ہے۔ آئے روز ایسے فیصلے دئیے جاتے ہیں جن کی کوئی منطق نہیں۔ اتنی پابندیاں مارشل لاء میں نہیں لگائی گئیں جو اب دکھنے میں آرہی ہیں۔‘کہتے ہیں ’موجودہ پارلیمنٹ میں کوئی دم خم نہیں، اگلی پارلیمنٹ میں فیصلے ہوں گے۔‘ یہ ہے وہ اصل مدعا جو انہوں نے برملا کہہ دیا ہے۔ جہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔
نواز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی 'بدترین ڈکٹیٹر شپ' ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ ملک میں جو ہو رہا ہے وہ 'جوڈیشل مارشل لا سے کم نہیں ہے۔یہ اصطلاح سب سے پہلے لال حویلی کے عوامی فلسفی شیخ رشید نے استعمال کی تھی‘ملک کے 22 کروڑ عوام کی زباں بندی کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ 'اگر ان کے والد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر ہو گی۔
آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر کاروائی کرسکتی ہے۔‘ اس شق میں اہم ترین بات یہ ہے کہ عدالت کسی بھی ایسے معاملے میں براہ راست دخل دے سکتی ہے جس کا تعلق عوام کے بنیادی حقوق سے ہو۔ یہ حق کسی اور نے نہیں 1973ء کے آئین سازوں نے دیا ہے۔ یہ اختیار جنرل ضیاء الحق یا کسی آمر نے عدلیہ کو تفویض نہیں کیاتھا۔ 1973ء کے آئین کی پاسداری کی باتیں کرنے والوں کو آرٹیکل 184(3) سے ’چِڑ‘ کیوں ہے؟ عوام کے حقوق پر عملدرآمد پر تکلیف کیوں ہورہی ہے؟
سوال یہ ہے کہ یہ نوٹس کن امور پر لئے جارہے ہیں؟ کیا کوئی پرمٹ دلانے کا مطالبہ ہورہا ہے؟ کسی غیرقانونی کام کی انجام دہی کے لئے اصرار ہورہا ہے؟ کیا کسی کو سزا سے بچانے کے لئے سوال جواب ہورہے ہیں؟ کیا آئین پر عمل کرانا جرم ہے؟ شہریوں کو پینے کا صاف پانی کیوں نہیں مل رہا؟ یہ پوچھنا ووٹ کی بے عزتی ہے؟ اہلیت کے بجائے ذاتی جان پہچان اور دوستیاں، رشتہ داریاں اور عزیزداریاں نبھاتے ہوئے اعلی ترین مناصب پر تقرریاں کرنا آئین کی پاسداری ہے؟ ریاست اور ریاستی اداروں کو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پابند کرنا بے اصولی ہے؟ ہسپتال میں تڑپتے مریض اور ڈیوڑھیوں اور راستوں پر بچے جنتی ہماری مائیں بہنیں‘کسی مریم کے دل پر چھری نہیں چلاتیں؟ اگر ان بے آسروں کے لئے کوئی ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے تو کیا غلط ہے؟ یہ سب ظلم نہ ہوں تو کون سی عدالت؟ کون سا اختیار؟ اور کون سا میڈیا کیا خبر دے گا؟ کیا اللہ کے بندوں کی سرعام اور روزانہ بنیادوں پر ہونے والی ذلت ورسوائی کو بند کرنے کی پکار غیرآئینی قرار دی جائے؟
دوسروں کی پرچیوں پر لکھے الفاظ کی جگالی کرکے خود کو لیڈر کہلانے والے کاش علم، کتاب اور آئین وقانون کے فلسفے سے بھی روشناس ہوتے۔ کتاب پڑھنے کے بجائے وہ پیسے کی بنیاد پر بندہ روزگار پر رکھ لیتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ صرف ہماری عدلیہ ہی نے ’اودھم‘ مچا رکھا ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی عدلیہ اسی طرح کے ’گْل‘ کھلاتی ہے۔
اول، 184(3) کو آخر آئین سازوں نے اسے بڑے اہتمام سے دستور میں کیوں ڈالا؟ کیا ان کو ’ووٹ کی عزت‘ اور ’حرمت‘ کا کوئی خیال نہیں تھا؟ کہ براہ راست عدالت کو اس شق کے ذریعے اتنی بڑی قوت دے ڈالی کہ وہ کسی بھی مفاد عامہ کے مسئلہ میں اپنی ’ٹانگ اڑائے‘۔ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے براہ راست عدالتی کاروائی پوری دنیا کے عدالتی نظام کا اہم یا بنیادی جزو تصورہوتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد جابر حکومتوں اور نظاموں کے خلاف عوام کو تحفظ دینا اور حکومتی قوت کا راستہ روکنا ہوتا ہے۔ عام طورپر یہ اختیار ان معاشروں، نظاموں اور ریاستوں میں زیادہ قوت اور روانی سے ہوتا ہے جہاں عوام میں خواندگی کی شرح کم ہو، ادارے پوری طرح سے نشوونما نہ پاسکے ہوں یا پھر اعلی ترین سطح پر نااہلی کی بنا پر بدانتظامی، بدعنوانی اور سستی ولاپرواہی کا شکار ہوں۔ عدالت کے براہ راست اختیار کے استعمال کو دستور کی تیاری کے وقت ’جدید عدالتی اصطلاح‘ کے طورپر سمویاگیا تھا۔
پاکستان میں اس کے استعمال کی ایک وجہ روایتی نظام انصاف سے عوام کی مایوسی کو ختم کرکے ایک نئی امید دینا تھا۔ ہمیں آئین کے خالقوں کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ نئی مملکت کے قیام کے بعد آنے والے مسائل کو انہوں نے ذہن میں رکھا اور بجا طورپر اس امر کو ملحوظ رکھا کہ ریاست کے ادارے تشکیل کے مرحلے میں ہیں اور انہیں عوام کے حقوق کی فراہمی کے لئے جو معیار اور فعالیت درکار ہے، اس میں وقت لگے گا۔ اسی بنا پر انہوں نے آئین میں یہ اختیار عدلیہ اور وہ بھی چیف جسٹس پاکستان کے اعلی ترین منصب کو تفویض کیا۔ 1973ء کے مقدمات کے نظائر دیکھ کر مزید تشریح پڑھی جاسکتی ہے۔ یعنی جسٹس ثاقب نثار نے یہ اختیار ایجاد نہیں کیا اور نہ ہی وہ کوئی پہلے منصف ہیں کہ انہوں نے اس قوت نافذہ کا عوامی مظاہرہ شروع کردیا ہے۔
دوسری حقیقت دستوری ڈھانچہ میں یہ چھپی دکھائی دیتی ہے کہ حکومت اور اداروں میں اختیار تقسیم کرتے ہوئے آئین سازوں نے عوام کو بے آسرا اور بے اختیار نہیں چھوڑا بلکہ ان کے حقوق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک چھتر چھایا بھی فراہم کی اور عدالت کو بنیادی انسانی حقوق کا محافظ بنادیا۔ حکومتی اختیار، اداروں کے مقابلے میں آئین سازوں نے عام آدمی کو بے اختیار اور بے آسرا نہیں کیا بلکہ انہیں عدالت عظمی کو آرٹیکل 184(3)کی قوت دے کر ایک سایہ اور حفاظت فراہم کی ہے۔ عدالتوں نے ایک محافظ کا کردار ادا کرنا شروع کیا ہے تو اس پر تکلیف ہورہی ہے۔اچھی حکمرانی یعنی حسن انتظام کے لئے عدالت عوام کی آواز بن رہی ہے اور عملا اچھی حکمرانی نافذ کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔
کوئی اور نہیں خود جسٹس نسیم حسن شاہ یہ قرار دے چکے ہیں کہ مفاد عامہ میں قانونی کاروائی سے جہاں تعلیمی نظام کی خامیاں دور ہوتی ہیں، خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی ہوتی ہے، جائیداد اور وراثت کے حقوق کا تحفظ ملتا ہے، بلکہ متعلقہ قوانین میں موجود سقم دور کرنے کیلئے قانون سازی کا حکم بھی صادر کیاجاتا ہے۔
بھارت میں عدالتیں حکومتی لاقانونیت کے متاثرین کو عبوری دادرسی فراہم کرتی ہیں۔ وزیراعظم نرسمہارائو کے دور میں بھارتی سپریم کورٹ نے کرپشن کیس میں حکومتی مداخلت کے الزام پر تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو مقدمہ کا فیصلہ ہونے تک عدالت کے ماتحت کردیاتھا۔ آئینی عدالت کے ذریعے بنیادی حقوق کا تحفظ کے عنوان سے یورپی کمشن برائے جمہوریت بذریعہ قانون (وینس کمشن) رپورٹ بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ ستمبر1995ء میں آنے والی رپورٹ میں کہاگیا کہ آئینی عدالتوں کے جج قانون کی حکمرانی کی نشوونما اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں کردارادا کررہے ہیں۔ان کا ماننا تھا کہ قومی سطح پر حقوق کے تحفظ کا عمل بتدریج عالمی سطح پر پھیلانا چاہئے۔ جرمنی، سپین، اٹلی اور آسٹریا کا حوالہ دیتے ہوئے کہاگیا کہ وہاں کی آئینی عدالتوں نے اچھا خاصا کیس لاء ڈویلپ کیا ہے۔ ان عدالتوں کا بنیادی مقصد ہی ریاستی اداروں کی چیرہ دستیوں سے شہریوں کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
آئینی عدالت کے دائرہ اختیار پر بحث کرتے ہوئے رپورٹ بیان کرتی ہے کہ آئینی انصاف کی بڑھتی کشش اس اخلاقی قوت میں پنہاں ہے جو شہریوں کے اعتماد کی صورت میں عدالت کوحاصل ہوتا ہے۔امریکی سپریم کورٹ نے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کانگریس کے اختیار پر قدغن لگادی تھی۔ برطانیہ میں تحریری آئین نہیں لیکن وہاں عدالتی فیصلے یا روایات آئین کا درجہ رکھتے ہیں، یہ روایات شہری حقوق کے تحفظ کی کہانی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024