کھیلوں کے میدان تجارت بن گئے‘ پروفیشنل لوگوں کو آگے لائے بغیر کھیلوں میں ترقی ممکن نہیں
جاوید یوسف
پاکستان میں کھیلوں کے شعبوں سے مختلف باتیں منظر عام پر آرہی ہیں۔ بالخصوص کرکٹ اور ہاکی کے شعبے زبردست تنقید کی زد میں ہیں اب تو کرکٹ اور ہاکی کی ناقص کارکردگی کی باتیں قومی اسمبلی میں بھی آگئی ہیں، گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں لیڈر آف دی اپوزیشن خورشید شاہ نے کرکٹ اور ہاکی کی کارکردگی پر زبردست تنقید کی۔ ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم جب دو میچ ہاری تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک ذمہ دار رکن نے کہا کہ ابھی تو ”ہماری ٹیم دو میچ ہی ہاری ہے“ یہ بات کہنے کا کیا مقصد تھا کیا ورلڈ کپ میں پاکستان نے 20 میچ کھیلنے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے رکن کی اس بات کا نوٹس حکومت کے کسی ذمہ دار نے نہیں لیا۔ اب بنگلہ دیش سے ون ڈے سیریز میں تینوں میچ ہماری ٹیم ہار گئی پی سی بی کے متذکرہ رکن اب کیوں نہیں بولے۔ بورڈ کے ذمہ دار عہدیدار الٹے سیدھے اور بے تکے بیانات اور تجزیے کرکے کیا حاصل کرتے ہیں، کیا ان افراد کو ان ہی مقاصد کے لئے بورڈ میں تعینات کیا جاتا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ میں نان پروفیشنل اور سیاسی عناصر کو رکھنے کے کیا مقاصد ہیں ہمارے حکمرانوں کو صرف اور صرف اپنے رفقاءکاروں کو کھپانے کا شوق ہے انہیں اس بات کا علم نہیں کہ کون شخص کس جگہ پر کھپایا جائے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ صورت حال سے وفاقی حکومت اور دیگر شعبے بھی پوری طرح واقف ہیں کچھ افراد کو تو راتوں رات کروڑ پتی بنانے کے لیے بورڈ میں کھپایا گیا ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے بارے میں تو ہمارے دشمن ملک نے کہہ دیا تھا کہ اگر فیڈریشن کے پاس فنڈز نہیں تو وہ فنڈز دینے کو تیار ہے ہمارے حکمرانوں نے یہ بات کس طرح برداشت کرلی اس کا علم سب کو ہے مگر جواب حکمران ہی دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں کھیلوں کے شعبوں کو سیاسی جماعتوں کا حصہ نہ بنایا جائے بلکہ ہر کھیل کے ادارے میں پروفیشنل افراد کو کھپایا جائے جو اس کا انتظام کھیل کو سامنے رکھ کر کرسکیں۔ کرکٹ بورڈ کی اس وقت مکمل طور پر تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کھیلوں کے میدان ”تجارتی میدان“ بن گئے ہیں۔ مختلف اداروں سے یہ میدان کھیلوں کے لیے حاصل کئے گئے جہاں اب کروڑوں روپے کا کاروبار ہورہا ہے کرکٹ کے میچوں میں رات دن کے علیحدہ علیحدہ ”ریٹ فکس“ ہیں اسی طرح دیگر کھیلوں کے لیے کھیلوں کے میدانوں میں تجارت ہو رہی ہے حکمرانوں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا وہ کسی اور وجہ سے سب کچھ دیکھتے ہوئے کیوں خاموش ہیں، کھیلوں کے بیشتر میدانوں میں صرف اور صرف خودساختہ رئیس لوگوں کے بچے کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میدانوں میں کھیلنے کے لیے متوسط اور غریب بچوں کا ”سایہ“ تک نظر نہیں آتا۔ مافیا صرف چند شعبوں میں موجود نہیں بلکہ ہر شعبے میں پھل پھول رہا ہے۔ اس ”مافیا“ کو کون پال رہا ہے؟ اس کو کون ختم کرے گا؟۔ غریب اور متوسط طبقے کے خاندانوں کے بچوں کو کب اچھے میدانوں اور اچھے ماحول میں بغیر پیسے دئیے کب کھیلنا نصیب ہوگا؟