الیکشن کمشن آف پاکستان نے معلوم نہیں کس اخلاقی یا آئینی بنیاد پر یہ ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے کہ کوئی امیدوار یا جماعت مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگ سکتے۔ ایک صاحب نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی بندش کے الیکشن کمشن کے حکم کا اس طرح خیر مقدم کیا ہے کہ قوم کی تشکیل میں مذہب کے کردار کی نفی کرنے والے مولانا حسین احمد مدنی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی مذہب کی بنیاد پر دو قومی نظریے اور دو قومی نظریے کی اساس پر مسلمانوں کے لئے اپنی ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے خلاف تھے۔ جبکہ علامہ اقبال وطن کی بنیاد پر قوم کے تصور کے مخالف تھے۔ علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کے ”ملّت از وطن“ کے تصور پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا حسین احمد مقام محمد عربی سے کتنے بے خبر ہیں کہ وہ ملّت کی بنیاد وطن کو قرار دے رہے ہیں۔ اگر ”ملّت وطن سے ہے“ کا نظریہ درست تسلیم کرلیا جاتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ تم خود کو محمد مصفطیٰ ﷺ سے وابستہ کرلو کیوں کہ حضور نبی پاک مکمل دین ہیں۔ اگر تم محمد عربی سے وابستگی پیدا نہیں کرتے تو پھر تمہارے تمام اعمال ابو لہب جیسے ہیں۔ علامہ اقبال کا درج ذیل فارسی کا مصرع نظریہ پاکستان کی مکمل تفسیر ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
الیکشن کمشن پاکستان کے سربراہ فخرو بھائی یا اس کے دیگر ممبران کو اگر ملّت اسلامیہ کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں کوئی شبہ ہے تو وہ علامہ اقبال کے کلام سے راہنمائی حاصل کریں۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے فلک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
بازو تر توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تر دیس ہے تُو مصطفوی ہے
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پاکستان قائم ہی مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا اور پاکستان مستحکم بھی مذہب کی بنیاد پر رہ سکتا ہے۔ مذہب کو اپنے ذاتی مفادات اور اغراض کے لئے استعمال کرنا ہر گز درست نہیں لیکن پاکستان کے وفاق کو مضبوط بنانے کے لئے مذہب کی قوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اگر ہم قرآن و سنت کی روشنی میں عدل و انصاف پر مبنی معاشی نظام قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو اسے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مذہبی خیالات اور احساسات کا استحصال کرنا ایک الگ بات ہے لیکن پاکستان میں سیاست، معیشت اور معاشرتی اعتبار سے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یا امیدوار قوم سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ منتخب ہر کر امور مملکت کو عین اسلامی تعلیمات کے مطابق سرانجام دیں گے اور پھر وہ منتخب ہو کر اپنے وعدوں کی پاسداری بھی کرتے ہیں تو یہ عوام کے مذہبی احساسات کا استحصال نہیں۔ ہماری مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ دستورِ پاکستان کے مطابق ریاست کا مذہب اسلام ہے۔ آئین کے آرٹیکل 31 کے مطابق مسلمانانِ پاکستان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے بنیادی اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کے اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید اور اسلامیات کی تعلیمات کو لازمی قرار دینے کی ضمانت بھی پاکستان کا آئین فراہم کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ہر منتخب مسلمان ممبر کو یہ حلف اٹھانا پڑتا ہے کہ وہ اسلامی نظریے کے تحفظ کے لئے بھرپور کوشش کرے گا جو تخلیقِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ خود الیکشن کمشن پاکستان نے جو کاغذات نامزدگی شائع کئے ہیں اور ہر مسلمان امیدوار نے یہی کاغذات الیکشن میں حصہ لینے کے لئے جمع کروائے ہیں۔ ان کاغذات نامزدگی کے مطابق بھی ہر مسلمان امیدوار نے قوم کے ساتھ اسلامی نظریے کے تحفظ کا عہد کیا ہے۔ دستورِ پاکستان کے دیباچہ میں واشگاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ تمام کائنات پر فقط اللہ تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ ہے۔ لہذا پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات اللہ کی طرف سے تفویض کی گئی ایک امانت کے طور پر استعمال کریں گے۔ اسلامی احکامات کے حوالے سے جب پاکستان کا آئین اس امر کا بھی ضامن ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایا جا سکتا تو پھر مذہب کے نام پر ووٹ نہ مانگنے کی الیکشن کمشن کی ہدایت اور اس ہدایت پر سیکولر طبقے کا بغلیں بجانا اور خوشی میں اُچھلنا میرے نزدیک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے پر پابندی کو نظریہ پاکستان کے منافی قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے بڑے تو نظریہ پاکستان کے خلاف تھے۔ سیکولر طبقہ نے جب رنج دیا ہے تو اطمینان کی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو بھی آخر نظریہ پاکستان کے دامن سے وابستہ ہونا پڑا ہے۔ ایک کالم نویس نے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا حوالا دے کر یہ لکھا ہے کہ ان دونوں سیاست دانوںنے مذہب کے نام پر الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کو ہمیشہ شکست دی ہے۔ جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق ہے ان کے حوالے سے یہ حقیقت احمقوں کی جنت میں رہنے والے سیکولر طبقہ کو معلوم ہونی چاہئے کہ جتنی اسلامی دفعات 1973ءکے آئین میں ہیں اس پہلے پاکستان کے کسی دستور میں نہیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1974ءمیں قادیانیوں کو عین قرآن و احادیث کے مطابق آئینی طور پر بھی غیر مسلم قرار دیا تھا تو اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی مذہبی جماعتوں سے کہیں بڑھ کر قرآن اور سنتِ رسول پر ایمان رکھنے والے سیاست دان تھے اور نواز شریف کو بھی عقل و شعور رکھنے والا کوئی شخص سیکولر سیاست دان قرار نہیں دے سکتا۔ نواز شریف نے تو جن جماعتوں سے اتحاد قائم کرکے 1990ءمیں انتخابات میں حصہ لیا تھا اس کا نام ہی اسلامی جمہوری اتحاد تھا اور اسلامی جمہوری اتحاد کے منشور کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا تھا کہ پاکستان کا قیام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں اس شریعت کے مطابق تعمیر نو کے لئے عمل میں لایا گیا تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر اتاری تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر عوام سے یہ عہد کیا تھا کہ ہم قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے مسلسل جدوجہد کریں گے ۔کیا قرآن و سنت کی بالا دستی کا عہد کرنا نواز شریف کو ایک سیکولر سیاست دان ثابت کرتا ہے یا اس کے بالکل برعکس۔ سیکولر طبقے کو یہ جان کر یقیناً صدمہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے طور اپنا جو انتخابی منشور پیش کیا تھا اس کا پہلا اصول بھی اسلام کی خدمت تھا۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہونے والے پی ڈی اے نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو زیادہ سے زیادہ مﺅثر بنایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی یقیناً معروف معنوں میں ایک مذہبی جماعت نہیں ہے لیکن جب وہ اسلام کی بالا دستی، اسلام کی خدمت اور قرآن و سنت پر مبنی قانون سازی کا یقین دلاتی ہے تو ہم اس پر شبہ کیوں کریں۔ اس لئے سیکولر طبقہ کی یہ خوشی محض دل کو بہلانے کا ایک بہانہ ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی بندش کو اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں کوئی بھی جماعت کامیاب ہو وہ قرآن و سنت سے منافی ملک میں کوئی قانون سازی نہیں کرسکتی۔ یہ ملک جس اسلامی نظریے کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہی ہمارا نصب العین رہے گا۔ ہماری انفرادی یا اجتماعی زندگی میں عمل کا فقدان ہو سکتا ہے لیکن ہماری روحوں کا اسلام سے رشتہ کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا ایک ریاست کے طور پر جو اسلامی تشخص ہے اس کے خدوخال کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے دشمن بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی مضبوطی کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38