تحریکِ انصاف کو اداروں کے صبر کا امتحان نہیں لینا چاہیے
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے کچھ ساتھی اقتدار سے نکلنے کے بعد سے مسلسل اداروں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ کبھی وہ عوامی جلسوں میں اداروں کے خلاف گفتگو کرتے ہیں تو کبھی مختلف انٹرویوز کے دوران ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن سے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف بغاوت کا تأثر ملتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے ایسے بیانات کا سامنے آنا افسوس ناک ہے۔ پی ٹی آئی نے اس ملک پر تقریباً پونے چار سال حکومت کی ہے اور اس وقت بھی دو صوبوں میں اس کی حکومت ہے۔ کوئی حکومت اداروں کے بغیر نہیں چل سکتی، لہٰذا عمران خان اور ان کے ساتھی اداروں کے خلاف بیانات دے کر صورتحال کو کسی ناخوشگوار انجام کی طرف لے جانے کی بجائے سیاسی بصیرت سے کام لیں تاکہ معاملات سدھار کی طرف آئیں۔
اس حوالے سے عمران خان نے جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے پیش ہو کر توہین عدالت کیس میں خاتون جج سے معافی مانگنے کی جو بات کی ہے وہ خوش آئند ہے۔ عدالت نے بھی ان کے اس بیان کے بعد ان کے خلاف فردجرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر کرتے ہوئے تحریری بیان حلفی عدالت میں جمع کروانے کی ہدایت کی اور سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔ عمران خان چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے روبرو اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت کی اجازت ملنے پر عمران خان نے کہا کہ میں نے ارادی طور پر خاتون جج کو دھمکی نہیں دی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں لیگل ایکشن لینے کا کہا تھا، میں خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں، میں آئندہ اس قسم کی کوئی بات نہیں کروں گا۔ عدالت نے کہاکہ ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے آپ کو خاتون جج کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آپ بیان حلفی جمع کرا دیں اور آئندہ محتاط رویہ اختیار کریں۔
ادھر، سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کی قیادت کو استعفے واپس لے کر قومی اسمبلی میں جانے کا مشورہ دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی سے تمام استعفے ایک ساتھ منظور کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے باور کرایا کہ عوام نے پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے، کروڑوں لوگ اس وقت سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں، سیلاب متاثرین کے پاس پینے کا پانی ہے نہ کھانے کو روٹی۔ ملک کی معاشی حالت بھی دیکھیں۔ پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ 123 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے کتنے اخراجات ہوں گے؟ تحریک انصاف کے وکیل فیصل چودھری نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں استعفوں کی منظوری سے پہلے کے حقائق کو دیکھا ہے لیکن استعفوں کی منظوری کے بعد کے حالات نہیں دیکھے، صرف چند منتخب حلقوں میں الیکشن کروانا تفریقی عمل ہے۔ استد عا ہے کہ سارے حلقوں میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔
سپریم کورٹ کا مشورہ صائب ہے تاہم عمران خان کے کچھ نادان دوست اپنی انا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے معاملات کو بگاڑ کی طرف لے کر جانا چاہ رہے ہیں۔ انھی میں سے ایک فواد چودھری بھی ہیں جنھوں نے سپریم کورٹ کے مشورے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں انتخابات نہ ہونے کا نقصان انتخابات ہونے سے کہیں بڑا ہے۔ سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اندازہ نہیں رجیم چینج آپریشن میں پاکستان کو اب تک 5 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن آئین سے متصادم ہے۔ عوام اس اسمبلی کو نمائندہ نہیں سمجھتے۔ الیکشن سے زیادہ قیمت ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث دے رہے ہیں جس سے انتخابات روکے گئے۔ چار ماہ پہلے انتخابات ہو جاتے تو آج حکومت کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس بار لانگ مارچ کے حوالے سے ہماری حکمت عملی مختلف ہو گی۔ غیرمنتخب عہدیدار اصل فیصلہ ساز ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ساتھ نہ ہو تو حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔
پی ٹی آئی کے کچھ عہدیدار فواد چودھری سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ پارٹی کو استعفے واپس لے کر اسمبلی میں جانا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو آگے آ کر عمران خان کو سمجھانا چاہیے کہ ملک اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام سیاسی قیادت اکٹھی ہو کر ملک کو اس صورتحال سے نکالے۔ سیاسی رسہ کشی کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے لیکن اس وقت ملک کو منجدھار سے نکالنے کے لیے قابلِ عمل حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو خود بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی تقریروں اور بیانات میں اداروں کے خلاف کی جانے والی باتوں سے ملک کاکوئی بھلا نہیں ہورہا بلکہ اس سے ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا فروغ پا رہا ہے۔ انھیں چاہیے کہ ٹھنڈے دل سے پوری صورتحال پر غور کریں اور ایسے افراد سے جان چھڑائیں جو انھیں غلط مشورے دے کر ایسے راستے پر ڈال رہے ہیں جو انھیں بند گلی میں لے جائے گا۔