ہفتہ، 27 صفر المظفر 1444ھ، 24 ستمبر 2022ء
پاکستان نے دوسرے ٹی ٹونٹی میں انگلینڈ کو 10 وکٹوں سے ہرا دیا
پہلے میچ کے بعد تو پاکستان کرکٹ کے شائقین جی چھوڑ بیٹھے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ اتنے مارجن سے پہلے میچ میں ہارنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کم بیک نہیں کر سکے گی۔ مگر سب اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بڑے شاندار طریقے سے کم بیک کیا اور دوسرا میچ 10 وکٹوں سے جیت کر ناصرف اپنی ہار کا بدلہ لیا بلکہ سیریز بھی برابر کر دی۔ ورنہ حقیقت میں 200 رنز کا پہاڑ سر کرنا کوئی ایسی ویسی بات نہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ زیادہ رنز دیکھ کر ان کے ویسے ہی ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ بابر اور رضوان کی اوپنر جوڑی نے ایک بار پھر ایسا رنگ جمایا کہ
رنگ جمانے آئے ہیں رنگ جما کے جائینگے
’’بلا گھمانے آئے ہیں‘‘ سب کو گھما کے جائینگے
بابر اعظم اور رضوان نے واقعی ایسا کر دکھایا۔ بابر اعظم پر ایشیاء کپ کے حوالے سے جو تنقید ہو رہی تھی اب اس میں کمی آئے گی۔ پھر بھی بہت سے دل جلے کہہ رہے ہیں کہ اپنے گھر میں تو بلی بھی شیر ہوتی ہے۔ ہمارے کھلاڑی جو شیر کہلاتے ہیں باہر کھیلتے ہوئے کیوں بھوسے کا ڈھیر ثابت ہوتے ہیں۔ مگر خوشی کی بات ہے کہ اس میچ میں کھلاڑی گھبرائے نہیں اوپننگ پارٹنرز نے ہی 200 رنز کا ہدف پورا کر لیا اور میچ جیت کر ثابت کر دیا کہ ہمارے کھلاڑی کھیلنے پر آئیں تو بڑے سے بڑا ہدف پورا کر لیتے ہیں۔ نہ کھیلنے کا دل ہو تو کریز پر جا کرکھاتہ کھولے بغیر واپس آ جاتے ہیں۔
٭٭٭٭
لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اسلام آباد کی سکیورٹی سخت کر دی گئی
عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اسلام آباد شہر ایک بار پھر قلعہ بند ہو گیا ہے۔ سڑکوں پر کنٹینر لگائے جا رہے ہیں خندقیں کھودی جا رہی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے دشمن کی فوج نے حملہ آور ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ عمران خان نے اسلام آباد پر دھاوا بولا تھا۔ پہلی بار تو وہ طویل دھرنا دے کر پلٹے تھے دوسری بار مگر وہ چند درختوں کو آگ لگا کر ایک مخصوص مقام سے آگے نہ بڑھ سکے جس کی وجہ سے ان کی طاقت مشکوک سی ہو گئی ہے۔ جبھی تو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ انہیں بار بار میڈیا پر دعوت مبارزت دیتے پھرتے ہیں۔ للکار رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد آ کر دکھائیں اس بار ان کا پورا بندوبست کیا گیا ہے۔ ایسی دھونی دیں گے کہ یاد رکھیں گے۔ اب معلوم نہیں یہ حرمل کی دھونی ہو گی یا مرچوں کی۔ دیہات میں تو اپلوں کی بھی دھونی دی جاتی ہے۔ دھونی دی بھی اس لیے جاتی ہے کہ مچھروں سے نجات ملے۔ جو رات بھر بین بجاتے اور کاٹ کر خون چوستے رہتے ہیں۔ بندہ آرام سے سو بھی نہیں سکتا۔ معلوم نہیں رانا جی عمران خان صاحب کو کیا سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے بھی جوابی دھمکی دی ہے کہ ہماری چھوڑو اپنی خیر منائو۔ کوئی اور خیر منائے یا نہ منائے مگر اسلام آباد کے شہریوں کو خیر منانی چاہیے جو اب اس لانگ مارچ کی وجہ سے نجانے کتنے دن محاصرے میں رہ کر آنسو گیس کی دھونی لینے پر مجبور ہونگے۔
٭٭٭٭٭
شیخوپورہ سمیت کئی شہروں میں بھاری بجلی بلوں کیخلاف مظاہرے
بجلی بلوں کے ہاتھوں خودکشی پر مجبور ہونے والے لوگ احتجاج نہ کریں تو کیا کریں۔ خاموشی سے سولی پر چڑھ جائیں۔ اس وقت ان بجلی بلوں کی وجہ سے حالت یہ ہے کہ اگر بل جمع کرائیں تو گھر میں راشن نہیں ڈال سکتے۔ گھر کا کرایہ اور بچوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ سفید پوش دیہاڑی دار اور ملازمت پیشہ افراد کو بھی ان بجلی کے بلوں نے فقیر بنا کر رکھ دیا ہے۔ لگتا ہے موجودہ حکومت کا منصوبہ ہے کہ بجلی اتنی مہنگی کر دی جائے کہ پاکستان کے کسی متوسط طبقہ کے گھر میں رات کو بلب تک نہ جلے۔ صرف امرا اور اشرافیہ کے گھروں میں چراغاں ہو جو بجلی چوری میں سب سے آگے ہیں۔ یہ تو قیامت کی نشانی ہے۔ کہا جاتا ہے قیامت سے قبل کے دور میں میلوں دور کوئی روشنی جلتی نظر آئے گی۔ پاکستان کو آہستہ آہستہ اسی دور کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو ا س درد کا درماں کرنے آئے تھے۔ مگر دکھ ہوتا ہے یہ کہتے کہ یہی لوگ اس درد کو بڑھا رہے ہیں۔ اب ایک نتیجہ تو سب کے سامنے ہے۔لوگ مختلف شہروں میں ان بلوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی کے بل جلا رہے ہیں۔ آج پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان کسی کنٹینر پر چڑھ کر بجلی بل ادا نہ کرنے کا حکم دیں تو لاکھوں پاکستانی جو ان کو ووٹ دیں نہ دیں مگر ان کے کہنے پر بجلی ادا نہیں کریں گے۔ لوگ ان بلوں کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مگر حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے تو جلد ہی الیکشن میں ان کے خالی بیلٹ بکس انہیں کرنٹ مارتے ملیں گے۔ ا س وقت ان جاں بلب حکمرانوں کی حالت دیکھنے والی ہو گی۔
٭٭٭٭٭
چین نے نقشے میں اروناچل پردیش کو اپنا حصہ دکھا دیا
چین کے معاملے میں بھارت کو ہمیشہ شرمندگی اور ہزیمت ہی اُٹھانا پڑتی ہے۔ جب جب وہ چین کے منہ آتا ہے منہ کی کھاتا ہے۔ ارونا چل پردیش پر چین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے بھارت نے اس علاقے پر زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔ مگر بھارت اسے اپنا حصہ گردانتا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ روز سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جو چین نے اپنا نقشہ متعارف کرایا ہے اس میں اروناچل پردیش کو چین کا حصہ دکھایا ہے۔ اتنی بڑی کانفرنس میں جہاں بھارت کے دوست ممالک بھی موجود تھے۔ چین کی اتنی بڑی جسارت پر کیا مجال ہے جو گھر میں شیر اور باہر بکری بننے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک لفظ ہی بولاہو یا ماتھے پر بل ڈالا ہو۔ لگتا تھا ان کے سارے کس بل نکل گئے ہیں اور وہ بھیگی بلی بنے دم سادھے بیٹھے رہے۔ اب اس خاموشی کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ بھارت میں خود کو میڈیا کے زور پر انتہا پسند ہندو غنڈوں کی طاقت کے سہارے باہو بلی ثابت کرنے والا وزیر اعظم مودی چین کی اس ’’گستاخی‘‘ پر چپ رہا۔ دوسری طرف لداخ میں بھی بھارت نے اس حصے سے اپنی فوج باہر نکال لی ہے جس پر چین نے اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فوجی ایکشن لے کر قبضہ کیا تھا۔ یہاں بھی یہ سب کچھ اتنی خاموشی اور پراسرار طریقہ سے ہوا کہ خود بھارت میں سناٹا طاری ہے۔ میڈیا بھی اس پر خاموش ہے اور فوجی ترجمان کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ چین سے قبل پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کو نقشے میں اپنا حصہ دکھا کر جس کارخیر کا آغاز کیا تھا ، چین نے اس میں اپنا حصہ ڈال کر بھارت کو مزید شرمندہ کر دیا ہے۔
٭٭٭٭