سیلابی قیامت اور گوتریس کا انسان دوست ردعمل
الیکٹرانک میڈیا پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے المناک مناظر دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ عوام پر قیامت گزر گئی ہے۔ اس سیلابی قیامت پر پہلا انسان دوست ردعمل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل محترم انتو نیو گوتریس کا سامنے آیا جو تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے پاکستان پہنچ گئے اور سیلابی علاقوں کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے انسانوں کو بے بس اور مجبور دیکھا تو وہ تڑپ اٹھے اور عالمی ضمیر جگانے کے لیے دلیرانہ بیانات جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے کم ذمہ دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کر رہے ہیں ہمارا سیارہ جل رہا ہے لوگ تکلیف میں ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کا 33 فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے انسان سنگین مشکلات کا شکار ہیں جن کی فوری امداد کی ضرورت ہے۔ یہ بیان انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا ۔ ایک اور بیان میں انہوں نے کہا کہ ایک جانب پاکستان پانی میں ڈوب رہا ہے جبکہ دوسری جانب قرضوں میں ڈوبا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار دنیا کے 20 ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ پاکستان کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان حالات میں قرضے دینے والے ممالک اور مالیاتی اداروں کا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فرض ہے کہ وہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہلکا کریں۔ پاکستان کے ساتھ آج کل جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی اور ملک سے بھی ہو سکتا ہے۔ اپنے ایک اور بیان میں انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کے ممالک ابھی تک پاکستان کے حوالے سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ ان کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس نوعیت کے بیانات وہی شخص دے سکتا ہے جس کی رگوں میں اچھی ماں اور اچھے باپ کی اچھی تربیت کا خون دوڑ رہا ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جسم کی آنکھ کا ثبوت دیا ہے۔ احترام آدمیت کے قائل شاعر اور مفکر علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں کہا تھا
مبتلائے درد کوئی عضو ہو ،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا
جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
ہم عالمی سرد مہری کی شکایت کیسے کر سکتے ہیں جب کہ پاکستان کے اندر ہی گرم جوشی نظر نہیں آرہی۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں سیلاب متاثرین کے سلسلے میں بڑی سنگدل واقع ہوئی ہیں۔ ان کے لیڈروں نے رسمی بیانات جاری کر دیے ہیں مگر اپنے کارکنوں کو امدادی سرگرمیوں کے لیے متحرک نہیں کیا ۔ لیڈر سیلابی علاقوں میں ڈوبے ہوئے اپنے پاکستانی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کرنے کے لیے نہیں پہنچے۔ پاکستان کے فنکار بھی خاموش ہیں۔ پنجاب کے سابق گورنر محترم چوہدری سرور نے ایک ملاقات میں جاگوتحریک کے وفد کو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے حکومت کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہو رہے ہیں اور جعلی متاثرین سڑکوں پر ہی امدادی اشیا وصول کر رہے ہیں جبکہ سیلابی پانی میں ڈوبے ہمارے بھائی امداد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں الخدمت فاؤنڈیشن اور دوسرے پرائیویٹ اداروں نے انتہائی قابل ستائش خدمات انجام دی ہیں۔ پاک فوج بھی حسب روایت اپنی قومی ذمہ داریاں بڑی تندہی عزم اور جوش و جذبے سے ادا کر رہی ہے ۔ پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف ممالک سے رابطے کر رہے ہیں ان کے سفیروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ ان کی توجہ پاکستان کی جانب دلائی جاسکے اور عوام پر جو قیامت ٹوٹ پڑی ہے اس کا مقابلہ عالمی تعاون سے کیا جا سکے۔ سیلاب سے متاثرین افراد کو ایک دریا کے بعد دوسرے دریا کا سامنا ہے اور پانی ابھی کم نہیں ہو رہا کہ وبائی امراض نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گزشتہ 75 سالوں کے دوران اگر پاکستان نے حقیقی معنوں میں مساوی ترقی کی ہوتی اور پاکستان کے تمام علاقے پختہ ہوتے اور ان کے اردگرد حفاظتی بند تعمیر کیے جاتے اور چھوٹے ڈیم کافی تعداد میں بنائے جاتے تو پاکستان میں اس قدر افسوسناک تباہی کبھی نہ ہوتی۔ عالمی سربراہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار تو کر رہے ہیں مگر وہ مالی امداد کے سلسلے میں انتہائی کنجوسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیلابی تباہی کے تناسب سے دنیا کے امیر ممالک پاکستان کی مالی امداد کرنے کے لیے ابھی تک آمادہ نظر نہیں آتے ہیں۔ تاریخ کے تناظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان کی جگہ کوئی غیر مسلم ملک ہوتا تو دنیا کے تمام ممالک فوری اور ہنگامی طور پر اس کی مدد کو پہنچتے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقات کرکے ان کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہے لہٰذا دنیا پاکستان کی جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے۔ پاکستان کی فلاحی اور رفاہی تنظیموں اور انسان دوست افراد قابل ستائش امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور سیلاب سے متاثرہ پاکستانی بھائیوں کی امداد اور بحالی کے لئے حوصلہ افزاء کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ عمران خان نے سیلاب سے متاثرہ بھائیوں کی بحالی کے لیے سات ارب روپے کا فنڈ جمع کیا ہے جو قابل ستائش ہے ۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بے گھر لوگوں کو گھر تعمیر کر کے دیں گے ان کی یہ منطق ناقابل فہم ہیں اس وقت جو لوگ سیلابی پانی بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں اور سردیوں میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا ان کی بروقت امداد پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان کا کلچر تیزی کے ساتھ غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہوتا جارہا ہے۔ با اثر افراد امدادی سامان بازاروں میں فروخت کر رہے ہیں۔ اور امدادی اشیاء ان کے گھروں سے بھی برآمد ہوئی ہیں۔ جس ریاست میں آئین اور قانون کا ڈر نہ ہو وہاں پر لوگ بلا خوف جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ انسان دوست سماجی کارکن ہالی وڈ کی نامور اداکارہ انجلینا جولی پاکستان کے دورے پر ہیں انہوں نے سیلابی علاقوں میں پہنچ کر جس طرح متاثرین سے اظہار یک جہتی کیا ہے اور پوری دنیا کو عوام کی مشکلات کے سلسلے میں پیغام بھیجا ہے وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔ کاش پاکستان کے فنکار اور نامور شخصیات بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاکر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں سے اظہار یک جہتی کرتیں تو پاکستان کے اندر اور باہر مثبت اثرات پیدا ہوتے اور لوگ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے موٹیویٹ ہوتے۔