جمعۃ المبارک ‘ 16؍ صفر‘ 1443ھ‘ 24 ؍ ستمبر2021ء
ڈالر افغانستان جا رہا ہے۔ شوکت ترین
کیسے جا رہا ہے ، کہاں سے جا رہا ہے ، کیوں جا رہا ہے، اسے کوئی روکتا کیوں نہیں، پکڑتا کیوں نہیں۔ 90 فیصد بارڈر پر باڑ لگی ہے، چمن اور طورخم سے بھی آمدورفت بند ہے۔ تو یہ ڈالر ’’میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال‘‘ کیسے ہوا ہوائی ہو رہا ہے۔ دونوں کھلے بارڈر صرف تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر وزیر خزانہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈالر افغانستان جا رہا ہے تو یہ حکومت کے لئے افسوس کا مقام ہے جسے یہ تو پتہ ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ ڈالر کہاں سے کس راستے سے افغانستان جا رہا ہے۔ کیا پاکستان اور افغانستان دونوں کے سرحدی حکام اس سمگلنگ سے بے خبر ہیں یا دونوں کی ملی بھگت سے ڈالر کے لیے افغانستان جانے کا سفر آسان ثابت ہو رہا ہے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ ان چور دروازوں کو بند کرے ، جن سوراخوں سے ڈالر باہر جا رہا ہے ان کو بند کرے۔ کیونکہ اس طرح پاکستان میں ڈالر کی اُڑان اُونچی سے اُونچی ہو رہی ہے ، جس کی وجہ سے پوری معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ پٹرول ، سونا اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بیرونی قرضہ بیٹھے بٹھائے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کے ہاتھوں ملکی معیشت کی تباہی روکنے کے لئے حکومت کو آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہو گا۔ عورتوں کی طرح رونے دھونے سے گلہ شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ڈالر میں ہماری معیشت کی جان ہے اور کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت سے غافل نہیں رہ سکتا اس لئے اپنی جان کو افغانستان جانے سے روکنے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
٭٭٭٭٭
اسد الدین اویسی کی رہائشگاہ پر انتہا پسندوں کا حملہ۔ توڑ پھوڑ
اب تو دہلی کی اونچی سوسائٹیوں میں ، پوش علاقوں میں بھارت نواز مسلم ارکان اسمبلی بھی محفوظ نہیں رہے تو باقی ویران ہوں یا گنجان آبادی والے علاقوں میں ہندو غنڈوں سے عام مسلمان کو تحفظ کیسے ملے گا۔ اسد الدین اویسی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدر آباد دکن سے مسلسل کئی بار الیکشن جیتنے والے رکن اسمبلی ہیں۔ ایک طرف وہ بھارتی مسلمانوں کے حق میں بولنے والی وہ زبان ہے جس کی گھن گرج سے بھارتی انتہا پسند اور مودی سرکار کے چمچے اور کڑچھے خوفزدہ رہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بھارتی اقلیتوں کے ترجمان بن کر وطن پرستی کی سیاست بھی کرتے ہیں۔ اب آہستہ آہستہ ان کی جماعت آندھرا پردیش سے نکل کر بنگال میں بھی جگہ بنا رہی ہے۔ وہ اور ان کے بھائی ایک نڈر مسلمان سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جس طرح نئی دہلی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہندو جنونیوں نے حملہ کیا وہاں توڑ پھوڑ کی اور اس واقعہ کی فلم بنا کر اپ لوڈ کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب مودی سرکار کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ اب پولیس نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے ہندو سینا کے 6 کارکنوں کو پکڑ لیا۔ حملہ سینکڑوں افراد نے کیا اور پکڑے صرف 6 وہ بھی جلد ہی عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد رہا ہونگے۔ کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث لوگ برسوں بعد بھی کھلے عام پھر رہے ہوتے ہیں۔ بھارت کی کسی عدالت میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان قاتلوں کو سزا دے۔ دہلی سے لے کر ممبئی اور کلکتہ تک مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ اب تو یہ ہاتھ بڑے بھارت نواز مسلم رہنمائوں کے گریبانوں تک جا پہنچے ہیں تو بقول اسد اویسی ’’اب اس چائے والے کو اس کی اوقات یاد دلانا ہی پڑے گی۔‘‘
٭٭٭٭٭
شاہ لطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں امن و انسانیت کا پیغام دیا۔ بلاول
بے شک صوفی شعرا کی شاعری میں توحید ، رسالت ، دین اور تصوف کے ساتھ امن و انسانیت کا پرچار بھی کثرت سے ملتا ہے۔ اس میں شاہ لطیف بھٹائی شاہ حسین ، بلھے شاہ ، مست توکلی ، رحمان بابا ، سچل سرمست جیسے صوفی شعرا بھی مولانا رومی اور شیخ سعدی کے قافلے میں شامل نظر آتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں جدت پسند نظریات رکھنے والے دانشور ان کے حوالے سے ادھورا سچ کہہ کر ان سے اپنی عقیدت جتلاتے ہیں۔ یہی کام بلاول زرداری بھی کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے انہیں اور ان جیسے دوسرے بڑے لوگوں کو جو کچھ طوطے کی طرح رٹایا جاتا ہے وہ وہی کہتے ہیں۔ ان تمام صوفی شعرا نے امن و انسانیت کا پیغام دیا اور اسے پھیلایا بھی مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سب سے زیادہ زور سماجی مساوات، امیری ، غریبی اور طبقاتی تقسیم کے خاتمے پر بھی دیا ہے۔ وہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور ذات پات کے سخت خلاف تھے۔ مگر اس طرف کسی کی نظر نہیں جاتی۔ کیونکہ ان باتوں کی اشاعت سے خود فیوڈل طبقے کے مفادات پر زد پڑتی ہے اور یہ اتنے بے وقوف نہیں کہ اپنے پروں پر پانی پڑنے دیں۔ اس لیے یہ سب دانشور قسم کے لوگ عوام کو امن اور انسانیت کے نام پر بے وقوف بنا کر اصل صوفی تعلیمات سے دور کر رہے ہیں۔ صوفی خانقاہوں میں چھوٹا بڑا، امیر غریب ، مسلم غیر مسلم سب سے یکساں سلوک ہوتا تھا۔ ان کے غموں کا علاج کیا جاتا تھا۔ غریبوں بے نوائوں ، بے کسوں کی چارہ گری کی جاتی تھی۔ آج بھی اس اونچ نیچ اور امیری غریبی کی حد بندیوں کو ختم کر کے ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل ہی اصل صوفی تعلیمات ہیں۔ مگر کیا کریں اس طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
کابل میں طالبان کی بڑی تعداد تفریحی مقامات اور چڑیا گھر کی سیر کرنے لگی
ظاہری بات ہے جب جنگ کے اعصاب شکن لمحات تھم جاتے ہیں تو انسان کی طبیعت شور شرابے گولہ بارود سے تنگ آ کر کچھ لمحے آرام و سکون سے بسر کرنا چاہتی ہے۔ اب طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہیں بھی ان کے خلاف مزاحمت نہیں رہی۔ ہر طرف امن و سکون ہے تو ایسے میں جوان ہوں یا بوڑھے۔ طالبان کی بڑی تعداد فارغ ہونے کے سبب کابل کے باغات میں آثار قدیمہ میں عجائب گھر میں تصویریں بناتی اور سیر سپاٹا کرتی نظر آتی ہے۔ ان کے چہروں پر اب بے فکری اور سکون نظر آتا ہے۔ لوگ بھی ان سے مانوس ہیں اس لیے لگتا ہی نہیں کہ چند ہفتے قبل طالبان نے سابقہ حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا ہے۔ کابل کے کوچہ و بازار پہلے کی طرح سجے ہوئے ہیں۔ بس ذرا عورتوں کو کچھ پریشانی ہے۔ انہیں اب برقعہ پہن کر باہر آنا پڑتا ہے اور ملازمت کے سلسلے میں کام کاج پر جانے میں بھی کچھ دقت ہے مگر عام حالات قدرے بہتر ہیں۔ جن لوگوں نے 1980ء سے قبل مزار شریف ، کابل ، ہرات ، غزنی ، جلال آباد ، قندھار، بامیان وغیرہ دیکھے ہیں وہ ان شہروں کی آب و ہوا کی تاثیر اور تفریحی مقامات اور باغات کے علاوہ تاریخی آثار شاید ہی کبھی بھول پائیں گے۔ اس وقت کابل کا چڑیا گھر طالبان کی توجہ کا خصوصی مرکز ہے۔ جہاں کسی زمانے میں ببر شیر کا جوڑا ہوتا تھا جو خانہ جنگی میں مارا گیا مادہ شیرنی پہلے مری ببر شیر اندھا ہو کر کافی عرصہ بعد مرا۔ اب یہاں ، شتر مرغ ، ہرن ، اونٹ ، بندر وغیرہ ہی پائے جاتے ہیں۔ رفتار زمانہ میں بہت سے جانور بھاگ گئے کچھ لوگوں نے چرا لیے۔ پھر بھی جو کچھ بچا ہے غنیمت ہے۔ لوگ انہی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں یا پھر شہر میں افغانستان کی پہچان ببر شیر کا سنگی مجسمہ آنے جانے کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بازاروں میں ہوٹل چائے خانے بھرے ہوئے ہیں ، جہاں کم ہی سہی مگر رونق لگی رہتی ہے۔