پنجاب میں ڈاکٹر رائو سردار علی کی انٹری
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال گزر چکے اور اب چوتھا سال شروع ہے۔ اس سال کو کارکردگی دکھانے کا سال بھی کہا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے آئندہ دو سال کو انتہائی اہم اور مشکل قرار دیا۔ حکومت کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں مگر کم وسائل کے بہتر استعمال سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حکومت اس بات سے بخوبی آگاہ ہوچکی ہے کہ اس کے پاس مسائل پر قابو پانے کا واحد راستہ کارکردگی ہی ہے۔ حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے سب سے اہم اوربڑا سیاست کا میدان پنجاب ہے۔ پنجاب میں نہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت سردار عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کے تحت کام کر رہی ہے بلکہ وہ اس اہمیت سے بھی پوری طرح آگاہ ہے کہ قومی اسمبلی کی 272 عمومی نشستوں میں سے 141 پنجاب سے ہیں‘ اگر پنجاب کی کارکردگی بہتر نہ کی گئی تو باقی صوبوں سے جیتنے کے باوجود بھی مشکلات کا شکار ہوناپڑ سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی اپنی جماعت کو درپیش چیلنجز سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آئندہ دو سال کے دوران سیاست کا میدان جنگ پنجاب ہوگا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اپنے قائد وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق اپنی حکومت کی پنجاب میں کارکردگی کو مثالی بنانے اور عوام کو مطمئن کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب تین سال میں پنجاب میں چار چیف سیکرٹری اور چھ آئی جی تبدیل کرچکے ہیں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا نظریہ ہے کہ جو کام نہیں کرے گا اورجس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہوگی اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس نظریئے کے تحت انہوں نے پنجاب میں دو اہم عہدوں پر نئے افسران کا تقرر کیا ہے جن میں ڈاکٹر کامران افضل کی بطور چیف سیکرٹری پنجاب اور رائو محمد سردار علی خان کی بطور آئی جی پولیس پنجاب تعیناتی شامل ہیں۔ ڈاکٹر کامران افضل ایک انتہائی شریف النفس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں وہ پہلے بھی اہم سرکاری عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں۔ ان کی کارکردگی بھی ہمیشہ انتہائی تسلی بخش رہی ہے۔ صوبے میں امن و امان قائم رکھنے اور قانون کی بالادستی کیلئے اہم ترین عہدہ آئی جی پولیس کا ہوتا ہے۔ اس اہم عہدے کے لئے رائو محمد سردار علی خان کا انتخاب وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان کی سوچ اور ڈائریکشن کا عکاسی ہے۔ ان دونوں افسروں کے انتخاب اور تعیناتی سے محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید آئندہ دو سال کیلئے حکومت کو ان دونوں اہم عہدوںپر تبادلے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ آئی جی پنجاب پولیس رائو سردار علی خان جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کے علاقے گھگھے میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول لودھراں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور میٹرک میں ٹاپ کیا۔ ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ یوں پنجاب چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل کے بعد دوسرے اہم ترین عہدے پر بھی ایک ڈاکٹر کی تعیناتی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر رائو محمد سردار علی خان نے 25 سال کی عمر میں 1990ء میں بطور اے ایس پی پولیس سروس جوائن کی تھی۔ ان کا تعلق اٹھارہویں کامن سے ہے، پنجاب میں آئی جی تعینات ہونے سے پہلے رائو سردار علی خان نے اپنی 31 سالہ سروس کے دوران چاروں صوبوں میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ وفاق میں بھی ان کی پوسٹنگ ہمیشہ اہم اور حساس عہدوں پر رہی ہے، وہ 8 ماہ یو این میں اور دو سال آسٹریلیا میں خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ پنجاب میں تعیناتی کے دوران رائو سردار علی خان پہلے ایم ڈی سیف سٹی اتھارٹی، آر پی او بہاولپور اور آر پی او سرگودھا خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہیں بطور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب، جوائنٹ ڈی جی انٹیلی جنس بیورو پنجاب، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور سی پی او فیصل آباد کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ رائو سردر علی خان ان دنوں ایم ڈی پنجاب سیف سٹی اتھارٹی لاہور کے عہدے پر خدمات سرانجام دیں رہے تھے ان کے دور میں سیف سٹی اتھارٹی کا دائرہ کار پنجاب کے دیگر شہروں تک پھیلا گیا۔ رائو محمد سردار علی خان ایک پروفیشنل اور دیانت دار پولیس افسر کی شہرت رکھتے ہیں۔ رائو سردار علی خان کو پنجاب اور پاکستان کے بڑے اور نامور پولیس افسروں کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری بھی ملی تھی۔ رائو سردار علی خان پولیس افسروں کے بے جا تبادلوں کے سخت خلاف ہیں مگر وہ کارکردگی کی امید بھی رکھتے ہیں۔ یہ ایک منصفانہ پالیسی ہے۔ آر پی اوز، ڈی پی اوز یا دیگر افسروں کو جب تک ان کی سروس کاتحفظ نہیں ملے گا تو وہ دل جمعی سے کام نہیں کرسکتے مگر اس تحفظ کی آڑمیں کام چوری اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ آئی جی پنجاب کی بھی یہی سوچ ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ کسی افسر کے جرائم پیشہ افراد سے تعلقات یا ان کی پشت پناہی کا علم ہوا تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مینار پاکستان میں خاتون کے ساتھ بد اخلاقی کا جو افسوسناک واقعہ ہوا تھا اس کی انکوائری ٹیم کی سربراہی بھی رائو سردار علی خان نے ہی کی تھی۔ ان کی تحقیقاتی رپورٹ پر پولیس کے اعلیٰ افسروں کو جن میں ڈی آئی جی لاہور اور ایس ایس پی آپریشنز شامل تھے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا ۔میرٹ پر کام کرنے کی اس سے بہتر اور کیا مثالی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے کسی پیٹی بند بھائی کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے عہدوں پر دو ڈاکٹروں کی تعیناتی سے ہمیں امید ہے کہ پنجاب میں انتظامی امور اور امن وامان کی بحالی کا قبلہ درست ہو جائے گا۔