سٹنٹس سے سٹنٹ تک
شاید وہ کوئی پاکستانی تھا، پاکستان میں رہا ہوگا یا کسی نہ کسی حوالے سے اسے اس خطے کے عمومی حالات کا علم ہوگا جس نے دل میں خون کو جاری ہونے والی ایک پتلی سی رنگ نما تارکا نام سٹنٹ رکھ دیا ۔ ورنہ اس سے پہلے تو دنیا بھر میں سٹنٹ کا مطلب جادوگر یا میجک مین کے کرتبوں ہی کو سمجھا جاتا تھا جو مختلف طریقوں سے عوام کو محظوظ کرتے ہوئے انہیںحقیقت کی بجائے فرضی دنیا میں لیجاتے ۔ایکشن فلموں میں خصوصی طور پر ہیروئنیں یا ہیروز کو بلند و بالا عمارتوں سے چھلانگ لگاتے ، درندوں سے مقابلہ کرتے اور مشکل کام کرتے دکھایا جاتا ، وہ کام درحقیقت کسی اور سے لیے جاتے تھے مگر فلمی شائقین کو یہی پتہ ہوتا کہ یہ کام ہیرو یا ہیروئن خود ہی کررہے ہیں ۔ اب تو یہ سٹنٹس کمپیوٹر کی مدد سے بھی کروائے جاتے ہے ۔ ورنہ ماضی میں تو بہت سے سٹنٹ مین جو پردہ سکرین کے پیچھے ہی زندگی گزار دیتے ، کبھی ٹانگیں بازو تڑوا بیٹھتے اور کبھی کبھار اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ۔گزشتہ دو تین دہائیوں سے اصلی سٹنٹ مین ناپید ہوتے جارہے ہیں اور انکی جگہ اسی نام سے دل میں خون کی روانی رکھنے والے سٹنٹ نے لے لی ہے جو دنیا بھر میں چند ڈالرز اور پاکستان میں لاکھوں روپے کا ہے ۔کسی اور کی بات کیا کی جائے ۔ میں اپنی ہی بات کروں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور جو ایک سرکاری ادارہ ہے ، وہاں ایک پرائیویٹ مریض کے طور پر مجھے جو سٹنٹ ڈالے گئے اس تمام پروسیجر کا خرچ 2007 ء میں چار لاکھ روپے کے قریب تھا ۔ایک چھوٹی سی تار غالباً اس وقت بھی سوا سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان تھی ۔ یہ کاروبار اتنا چمکا کہ دل کے معمولی درد کے ساتھ جو بھی کسی نجی ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹرز نے اسے اتنے خوف میں مبتلا کیا کہ وہ ڈرکے مارے سٹنٹ ڈلوا کروا کر ہی باہر نکلا ۔
ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں سٹنٹ امپورٹ کرنے والی 55 کمپنیاں تو رجسٹرڈ جبکہ115 کمپنیاں سرے سے رجسٹرڈ ہی نہیں مگر جس کمپنی کی جہاں بھی دل کے کسی ماہر سپیشلسٹ سے لائن سیدھی ہے اسے کم از کم پاکستان میں کسی رجسٹریشن کی ضرورت نہیں اور مصدقہ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو سٹنٹ 0 3 سے 50 ڈالرز کا ہے اور پاکستانی قیمت کے مطابق سات سے آٹھ ہزار روپے کا ہے اور انکی امپورٹ پربھی کوئی لاگت نہیں کیونکہ اس مال کی اکثریت غیر قانونی طور پر پاکستان لائی جارہی ہے جس کا ایف بی آر سمیت کسی ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ۔یہ پرائیویٹ کمپنیاں جو رجسٹرڈ بھی نہیں مگر سالہا سال سے سٹنٹ فروشی کررہی ہیں وہ ایسے سٹنٹس بھی خرید لاتی ہیں جن کی معیاد چند ہی روز بعد ختم ہونے والی ہوتی ہے اور ایسے سٹنٹ شاید پانچ سے دس ڈالر میں ہی دستیاب ہوں مگر پاکستان میں ان کی قیمتوں میں کوئی رد وبدل نہیں کیا جاتا کہ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں 70مریضوں کو زائد المعیاد اور ایکسپائر ہونیوالے سٹنٹس ڈالے گئے جس سے مریضوں کی حالت خراب ہوگئی۔ انکوائریاں چل رہی ہیں ۔مریضوں کے نام بھی موجود ہیں بعض مریض دنیا سے بھی جاچکے ہیں ۔ ایک انکوائری جسے تین دن میں مکمل ہونا تھا اسے تین ماہ سے زائد عرصہ بیت گیا مگر انکوائری مکمل ہونے کانام نہیں لے رہی مگر آج بھی ملک بھر کے متعدد سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اس قسم کے غیر معیاری سٹنٹس موجود ہیں آج بھی سات آٹھ ہزار روپے کی چیز ڈیڑھ لاکھ یا اس سے بھی زائد میں دستیاب ہے۔بعض معلومات کے مطابق پاکستان میں سالانہ 30 ارب روپے سے زائد کے سٹنٹس ڈالے جارہے ہیں اور ان کی غیر قانونی درآمد پر ایف بی آر کو کتنا نقصان ہوتا ہے اس سے ایف بی آر کا کوئی تعلق نہیں اسکی پریشانی اور بوجھ لیں تو وزیراعظم عمران خان جو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود گزشتہ تین سال سے ایف بی آر میں وسل بلور کے قانون پر ہی عمل درآمد نہیں کروا سکے ۔
میو ہسپتال لاہور کے سٹنٹس سکینڈل کے حوالے سے جو رپوٹ سپریم کورٹ کو بھجوائی گئی ہے اس میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں بھی غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کا قبضہ ہے اور دل کے ہسپتالوں اور وارڈز میں آپریشن تھیٹر سے ملحقہ کمروں میں غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کے ارکان جو سٹنٹ فروشی کرتے ہیں ان کے نام بھی سپریم کورٹ میں پیش کیے جاچکے ہیں ۔حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ تمام مصدقہ معلومات ملنے کے باوجود کسی بھی غیر رجسٹرڈ کمپنی کیخلاف تادمِ تحریر کوئی باقاعدہ کارروائی سامنے نہیں آسکی ۔پانچ سال قبل اپنی بیٹی کی سالگرہ کے حوالے سے کٹنے والے کیک پر لگی کریم مجھے اتنی پسند آئی کہ کچھ زیادہ ہی کھا گیا۔ وہ کریم خوراک کی نالی اورمعدے کے اوپر والے حصے پر جاکر جم گئی ۔ مجھے سینے میں درد شروع ہوگیا اور ہلکا سا پسینہ بھی محسوس ہونے لگا ۔ میں نے اپنے دوستوں عامر علوی اور خالد سیال کو ساتھ لیا اور لاہور میں بر لب نہر ایک معروف نجی ہسپتال پہنچ گیا ۔جانے سے پہلے احتیاطاً فون بھی کروا دیا کہ جلد اور فوری علاج ہوجائے ۔ٹیسٹ ہوئے ، ای سی جی نارمل ، بلڈ پریشر نارمل اور ابتدائی تمام ٹیسٹ نارمل تھے ۔ نصف گھنٹے کے بعد دوبارہ کی جانیوالی ای سی جی کا رزلٹ پھر نارمل رہا۔میں بار بار کہتا رہا مجھے کیک پر لگی کریم کھانے کی وجہ سے معدے میں درد ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ اللہ بھلا کرے عامر علوی کا وہ باہر سے ہاضمے کا چورن اور فروٹ سالٹ لے آئے ۔ میں نے ایک گلاس میں دو چمچے فروٹ سالٹ ڈال کر پیا تو نصف سے زائد افاقہ ہوگیا ۔ پھر چورن کی گولیاں چبانا شروع کردیں تو ایک گھنٹے کے اندر اندر میں بالکل نارمل ہوچکا تھا ۔ مگر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر بضد تھاکہ آپ کو پہلے بھی سٹنٹ پڑ چکے ہیں ان میں سے شاید کوئی بند ہوگیا لہذا دوبارہ ڈالنا پڑیگا ۔ الحمد للہ میرا دل سٹنٹ کے مزید بوجھ سے بچ گیا اور جو کام تین چار لاکھ میں ہونا تھا وہ پندرہ ہزار میں ہوگیا ۔نجانے کتنے بیچارے استطاعت نہ رکھنے کے باوجود غیر ضروری سٹنٹ ڈلوائے بیٹھے ہیں۔ اب مجھے پتہ چلا کہ اس پتلی سی رنگ نما تار کا نام سٹنٹ کیوں رکھا گیا ہے کہ یہاں بھی تو دکھایا کچھ اور لگایا کچھ جارہا ہے ۔ ویسے بھی مافیاز کے زیر انتظام چلنے والے ملک میں ایسی باتیں انہونی نہیں ۔