درندگی کے واقعات کی روک تھام
دنیامیں دو بڑی طاقتیں ہیں:پہلی تلوار کی طاقت اور دوسری قلم کی طاقت،جو ایک دوسرے کے مدمقابل باہم برسرپیکار رہی ہیں۔ان دونوں سے بھی زیادہ مضبوط طاقت ’’عورت‘‘ہے‘‘۔قائداعظم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا۔ خواتین کے بارے انکے احترام کے خیالات و تصورات کی تشکیل میں مضبوط قوت ارادی کی حامل تعلیم یافتہ اور پیشہ ور خواتین کی معیت کا بہت گہرا اثرتھا۔ ان خواتین میں انکی بہن اورراز دان فاطمہ جناح بھی شامل تھیں۔
زندگی کی آخری دہائیوں میں بھی ہر موقع پر فاطمہ جناح اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں اور تن،من اوردھن کی قربانی سے بھی گریز نہیں کیا اور کروڑوں افراد کیلئے نئے ملک کے حصول کیلئے ظلم و جبر اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف پوری تندہی سے جنگ لڑی۔ تحریک پاکستان کے دوران خواتین اور مردوں دونوں نے باہم برابر شہری کے طورپر جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔لیکن یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان ہنوز قائداعظم کے دیئے ہوئے سماجی اور صنعتی مساوات کے واضح تصور کوذاتی اور قومی سطح پر عملی جامہ پہنانے سے کوسوں دْور ہے ۔ بدقسمتی سے گزشتہ سات ہنگامہ خیز دہائیوں میں ( جمہوری دور ہو یاآمرانہ دور ہو)ہم نے وطن عزیز میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں (بشمول جنسی تشدد اور خواتین سے زیادتی)کے واقعات میں مسلسل ہوش ربا اضافہ دیکھا ہے ۔یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں 70فی صد خواتین لڑکیاں اپنے قریبی عزیزوں کے ہاتھو ں جسمانی یا جنسی تشد د کانشانہ بنتی ہیں۔اور 93فی صد خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پرکسی نہ کسی صورت میں گھر سے باہر جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں (حوالہ:مددگار ہیلپ لائن 1098اور قومی کمیشن برائے اطفال،ضیاء احمد اعوان)
2017میں قصور میں ہونے والے زینب زیادتی کیس سے کمسن بچوں سے زیادتی کے منظم سلسلے سے بین الاقوامی سطح پر رائے عامہ کو آگاہی ہوئی حالیہ دنوں میں دو بچوں کی ماں پر موٹر وے پر زیادتی کے واقعہ نے نہ صرف پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے بلکہ ماضی میں اس طرح کی زیادتیوں کی شکار بے شمار مظلوم خواتین کے زخموں کو ہرا کردیا ہے۔دو بچوں کی ماں پر اسکے بچوں کے سامنے زیادتی کے اندوہناک واقعہ سے ان شیطان صفت درندوں کی طاقت کے مظاہرکی خواہش اور اسکی تکمیل کا عملی مظاہرہ سامنے آیاہے۔ اس مظلوم ماں کے کمسن بچوں کے جسمانی زخم تو جلد بھر جائیں گے مگر ان کی روح پر لگے چرکے اور ذہنوں پر لگے زخم شاید عمر بھر مندمل نہ ہوسکیں۔
سوال یہ ہے کہ اسکا ذمہ دار کون ہے؟قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے کیا وہ معاشرہ جو اس طرح کے عفریت پیدا کرتا ہے اور پھر اس سے رونما ہونے والے نتائج اور حقائق سے نظرانداز کرتا اور آنکھیں چراتا ہے؟موٹر وے پر ہونے والے اس سانحے نے پاکستان میں تیزی سے گرتے ہوئے اخلاقی انحطاط سے پردہ اٹھا دیا ہے۔تعلیم،خاندان،دوست و احباب اور کمیونٹی من حیث القوم سب ایسی سوچ، ذہنیت اور بدکرداری پیدا کرنے کے برابر کے ذمہ در او رقصور وار ہیں۔خواتین کی بہت ساری تنظیموں نے ڈر اور خوف کا اظہار اور ریاستی اداروں پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ بروقت انصاف نہ ملناہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمان میں اپنی تقریر میں تسلیم کیا ہے کہ خواتین سے زیادتی کے واقعات پاکستانی معاشرے کیلئے تباہ کن ہیں۔خواتین سے زیادتی کے جرائم کی روک تھام کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
(1)پولیس کے نظام میں اصلاحات:
محکمہ پولیس میں زیادہ سے زیادہ خواتین پولیس اہل کاروںکی بھرتی کی جائے۔مزید یہ کہ طبی قانون کے ڈھانچے میں ایسی مضبوط اور دیرپا ترامیم کی جائیں جس سے تفتیشی عمل اور جرم کے ثبوت جمع کرنے کے عمل کو اس طرح بنایا جائے کہ مجرم قرار واقعی سزا سے نہ بچ سکے۔
(2)عدالتی اصلاحات اور سزا :
پنجاب میں خواتین سے زیادتی کے مقدمات میں عدالتوں سے مجرم کو سزا ملنے کی شرح صرف 10فیصد ہے۔74فیصد مقدمات میں گواہ منحرف ہوجاتے ہیں۔زیادتی کی شکار خواتین کو اس گھناؤنے ظلم کو خاموشی سے برداشت کرنے اور پولیس کو رپورٹ نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ گواہوں کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونا ہے۔اس پہلو پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ خواتین سے زیادتی کے مقدمات کی خصوصی نگرانی اعلیٰ تربیت یافتہ خاتون و کلاء اور خاتون جج کے سپرد کی جائے۔خواتین سے زیادتی کی سزا موت ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ امر ذہن نشین ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ملک اپنی ثقافت اور قانون کی عملداری پہچانا جاتا ہے۔متحدہ عرب امارات میں منشیات کی سمگلنگ کی سزا موت ہے۔جس کی وجہ اس ملک جرم کی شرح انتہائی کم ہے۔ آج تک کسی بھی ملک نے متحدہ عرب امارات کے اندر اس سزا پر عمل درآمد پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ حالیہ گیلپ سروے کے مطابق پاکستانی عوام کی اکثریت خواتین سے زیادتی کے مجرم کے لئے سزائے موت کے حق میں ہے۔ضروری ہے کہ پاکستان میں خواتین سے زیادتی کے جرائم کو قطعاً برداشت نہ کیاجائے۔
(3)رویوں میں تبدیلی :
زیادتی کی شکار خواتین کو مور دِالزام ٹھہرانے کی بجائے ریاست اور معاشرے کے راہنماؤں کے رویے اور سوچ کی تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس ملک میں خواتین اور بچے محفوظ نہ ہوں،وہاں نہ تو امن قائم رہ سکتا ہے،نہ ہی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ ہی خوشحالی آسکتی ہے۔
ہم سب پر لازم ہے کہ یک زبان ہوکر خواتین، مردوں بچوںکیخلاف شرمناک جرائم کے مرتکب افراد کیخلاف صدائے احتجاج بلند کریں ۔اگر ہم سب پاکستانی میڈیا اور سوسل سوسائٹی اس ضمن میں اپنا تعمیری کردار ادا کرتے رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھنے والے افراد خود کو قانون کے دائرے میں محدود رہنے پر مجبور ہوجائیں۔