Motorway Rapist کو زمین کھا گئی ؟
انسان جسے خالق کائنات نے اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا واقعی بڑی عجیب شے ہے ضد پہ آ جائے تو کونین کو ویراں کر دے۔ حیوانیت پے آئے تو درندگی کی انتہا کر دے۔ ایسے ہی ایک درندے نے اگلے روز حوا کی ایک مظلوم بیٹی سے درندگی کی انتہاء کرتے ہوئے اسے کم سن بچوں کے سامنے اس کی عزت کو جس طرح تار تار کیا پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خواہش میری بھی یہی تھی کہ وقت ضائع کئے بغیر اسی وحشی درندے کو بے نقاب کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت حال ہی میں پنجاب کے آئی جی کے عہدے پر فائز ہونے والے ماسٹر ہولڈر اور برطانیہ سے بھی کچھ کورسز کرنے والے ماہر قانون انعام غنی صاحب سے ان کی اس پریس کانفرنس کے حوالہ سے جس میں ان کا کہنا تھا کہ PLANE CLOTH پولیس افسران کو دیکھتے ہی ملزم مبینہ طور پر کھیتوں میں کہیں روپوش ہو گیا۔ عاجزی و انکساری سے پوچھوں کہ یہ وحشی ملزم کیا اتنا ہی بڑا خون خوار یا پھر جیمز بانڈ تھا جسے کھیتوں میں چھپنے کی تصدیق یا Prediction کے باوجود پولیس ڈاگ فورس یا فضائی محاصرے میں تلاش کرنا قطعی ناممکن نہ تھا۔ بس! یہ تصور اور پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی میرے ہاتھ‘ قلم اور منتشر ذہن پر اس شدت سے حاوی ہو گئے کہ آئی جی صاحب تک بغیر وقت ضائع کئے اپنی معروضات بھجوانے کا خیال فوراً اپنے ذہن سے اس لئے بھی نکالنا پڑا کہ جس اسلامی ریاست میں سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس کھیتوں میں روپوش ہو جانے والے وحشی درندے کو فوری طور پر نہ پکڑ سکے۔ وہاں مجھ ایسے غریب الوطن کالم نگار کا رونا دھونا کون سنے گا؟ مجھے آج بھی یاد ہے کہ شہر اقبالؒ کو لاہور سے ملانے والی موٹر وے جس کی تعمیر پر مجھ سمیت دنیا بھر میں تلاش معاش کیلئے پھیلے اہل سیالکوٹ نے بھرپور انداز میں خوشیاں منائی تھیں 50 منٹ کے دورانیہ سفر کو ایک بہترین سفری سہولت قرار دیا تھا۔ اجتماعی زیادتی کے اس مبینہ واقعہ کے بعد وہ تمام تر خوشیاں اب ایک ایسے قومی غم میں تبدیل ہو گئی ہیں جن کا ازالہ اب شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو سکے۔
فرانس سے خوشی خوشی اپنے آبائی وطن کو بوسہ دینے کیلئے آئی کرموں جلی متاثرہ اس معزز خاتون کو کیا پتہ تھا کہ جس وطن میں اپنے بچوں سمیت وہ جا رہی ہے اس بار اس کی تمام حسرتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ اس مظلومہ کو کیا معلوم تھا کہ عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت پر مامور سی سی پی او جناب شیخ اس کے ساتھ ہونے والے درندگی کے مبینہ واقعہ کے وحشی ملزمان کو 12 گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرنے کے بجائے اسکے ہی وطن میں رات کو بچوں کے ہمراہ مبینہ طور پر موٹر وے پر سفر نہ کرنے کا درس دے کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ براں ہو جائیں گے۔ اسے کیا معلوم کہ یہ فرانس نہیں پاکستان ہے۔
جہاں کی پولیس کسی بھی شخص کی مدد سے قبل اس کے علاقہ اور وقوعہ کی حدود کا تعین کرنے کے بعد اپنے فرض کی پاسداری کیلئے روانہ ہوتی ہے جہاں مدد فراہم کرنے سے قبل پولیس کی حدود زیادہ اہم تصور کی جاتی ہیں مگر وہ کرموں جلی پولیس کو مدد کیلئے بلاتی رہی۔ دوسری جانب مبینہ طور پر پولیس کے فرض شناس اہلکار چھوٹے‘ بڑے اور بہت ہی بڑے تھانیداروں سمیت سپاہی‘ ہیڈ کانسٹیبلز اسے فوری پہنچنے کی تسلیاں دیتے رہے اور پھر پل بھر میں وہ کچھ ہو گیا جس سے انسانیت تک کانپ اٹھی۔
سرزمین پاک پر عصمت دری اور اجتماعی زیادتی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں درندگی کے ایسے واقعات تو گزشتہ 50 برس سے یہاں رونما ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنے آپ کو سماجی کاموں میں وقف کر دینے والی محترمہ مختاراں مائی کے اندوہناک واقعہ کو اس وقت اگر سنجیدہ لیتے ہوئے قانون میں ترامیم کر دی گئی ہوتیں تو بعد ازاں ننھی زینب‘ لاہور کے متعدد معصوم بچوں اور ننھی مروہ کے دل دہلا دینے والے واقعات کے بعد سیالکوٹ موٹروے یا سیالکوٹ رنگ روڈ یا پھر سیالکوٹ اور گوجرانوالہ زون میں فرانس سے آئی اس عزت دار خاتون سے اس کے ننھے منے بچوں کے سامنے اس اجتماعی زیادتی کا یہ دل سوز واقعہ کبھی رونما نہ ہوتا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم پر بعض لوگ آج بھی شدید تنقید کرتے ہیں۔ انہیں ملٹری ڈکٹیٹر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ نظام اسلام کے نفاذ کے حوالہ سے ان کی خلوص دل سے کی گئی کاوشوں پر بھی بعض طبقوں کو گہرا اختلاف ہے۔ لوگ اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں مگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود 1980ء میں زیادتی کا نشانہ بننے والے پپو کیس میں مجرم کو سرعام دی گئی پھانسی کی سزا کو اہل پاکستان آج بھی مثالی قرار دیتے ہیں۔ ضیاء الحق مرحوم کے اس فیصلے کے بعد بچوں سے اجتماعی زیادتیوں‘ زنا بالجبر کے واقعات میں یکدم کمی واقع ہو گئی مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ بعد میں سیاسی حکومتیں قانون میں ترمیم سازی کرتے ہوئے درندہ صفت ایسے وحشی مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا قانون پاس کر لیتیں۔ مگر افسوس! ایسا ہو نا سکا۔
پاکستان میں روزانہ خواتین ننھے بچوں اور ننھی بچیوں سے زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں درست ریکارڈ رکھنے کا بونافائیڈ سسٹم نہ ہونے کی بناء پر چونکہ زیادہ تر امور آج بھی فارمولوں سے ہی چلائے جا رہے ہیں۔ اس لئے ایسے اخلاقی جرائم کے خاتمہ کیلئے آئین میں فوری ترمیم اب ناگزیر ہے۔ اجتماعی زیادتی اور زنا بالجبر کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینا ہی ایسے وحشی درندوں کی سزا ہے۔
جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں Motorway Rapist کے مرکزی ملزم عابد علی کو پولیس گرفتار نہیں کر پائی۔ ملزم کے متعدد رشتہ داروں کو گو گرفتار کیا جا چکا ہے مگر عابد جو بقول آئی جی صاحب کھیتوں میں فرار ہو گیا تھا۔ تاہنوز گرفتار کیوں نہیں کیا جا سکا۔ یہ سوال عوام کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے۔ ملزم کی گرفتاری میں جوں جوں تاخیر واقع ہو رہی ہے پولیس کی بدلتی سٹریٹجی پر عام شہریوں کی سوچ اور محور بھی تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ ملزم کو زندہ پکڑنا اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ اس کی گرفتاری سے بڑے بڑے انکشافات متوقع ہیں اس لئے قانون کو ملزم اب زندہ درکار ہے۔