وزیراعظم عمران کی افغان امن مذاکرات کی جلد بحالی کی توقع
وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ روز امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے نیویارک میں ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت دیگر امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان سمیت تمام فریقین کو ایک میز پر اکٹھا کیا‘ امید ہے کہ فریقین کے مابین مذاکرات جلد بحال ہونگے۔ زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے پاکستان کے کردار کو سراہا اور پاکستانی تعاون جاری رہنے کی امید ظاہر کی۔ یہ ملاقات 40 منٹ تک جاری رہی اور زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران کو صدر ٹرمپ سے انکی مجوزہ ملاقات سے متعلق پیغام بھی پہنچایا۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کی کوششوں سے ہی امریکہ طالبان مذاکرات اور افغان امن عمل کی راہ ہموار ہوئی جسے واشنگٹن انتظامیہ نے بھی تسلیم کیا اور اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ اور وائٹ ہائوس میں انکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر خصوصی پروٹوکول دیا گیا جبکہ پاکستان کی امداد کی بندش کے حوالے سے عائد کردہ امریکی پابندیوں میں بھی نرمی کر دی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف بھی تسلیم کیا اور اس دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ اس تناظر میں توقع تو یہی کی جارہی تھی کہ اب افغان عمل کی کامیابی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی اور افغانستان کے صدارتی انتخاب سے پہلے پہلے افغانستان امن و امان کا گہوارہ بن کر علاقائی امن کی بھی ضمانت بن جائیگا مگر عین اس وقت جب امن مذاکرات کی بنیاد پر فریقین میں معاہدہ ہونیوالا تھا‘ کابل میں امریکی سفارتخانے کے باہر خودکش دھماکے میں دس شہریوں کے علاوہ ایک امریکی فوجی کی بھی ہلاکت ہوگئی جس کی بنیاد پر امریکی صدر ٹرمپ نے محض ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بساط الٹا دی۔ زلمے خلیل زاد اسی امن عمل کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے نامزد ہوئے تھے۔ اگر ٹرمپ کے بقول اب طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں رہی تو پھر زلمے خلیل زاد کی خصوصی نمائندہ کی حیثیت بھی ختم ہو گئی ہے اور اگر ٹرمپ نے انہیں اپنا خصوصی مندوب برقرار کھا ہوا ہے تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ طالبان مذاکرات کا دروازہ مستقل طور پر بند نہیں کیا۔ یقیناً مذاکرات کے ذریعے ہی اس خطہ میں امن کی بحالی یقینی بنائی جا سکتی ہے جو اس خطہ ہی نہیں‘ خود امریکہ کی بھی ضرورت ہے اس لئے افغان امن مذاکرات کو کسی بھی صورت کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہیے۔ یہ سطور شائع ہونے تک صدر ٹرمپ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مابین ملاقات ہوچکی ہوگی۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس ملاقات میں امریکہ طالبان مذاکرات کی بحالی کا راستہ بھی نکال لیا گیا ہوگا کیونکہ طالبان آج بھی مذاکرات کے حامی اور انکے نتیجہ خیز ہونے کے متمنی ہیں۔