مودی دہشت گرد ‘ ’’تم کیسے ہو؟‘‘
مودی جو دہشت گرد تھا جو آج بھی خوں آشام بھیڑیا ہے جس نے جنت نظیر کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنا رکھا ہے۔دس سال جس شخص کے امریکہ میں داخلے پر دہشتگردی کی وجہ سے پابندی رہی تھی آج وہ امریکی تاریخ میں پہلا غیرملکی لیڈر ہے جس کے اعزاز میں اتنی بڑی تقریب ہوئی جلسہ عام ہوا جس میں امریکی صدر ٹرمپ تمام وقت بنفس نفیس موجود رہا۔ گجرات میں نہتے اور بے گناہ عوام کے قاتل نے ٹرمپ کے دوسری بار امریکی صدارت کے لئے انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ سیاسی رشوت کا یہ عالمی منظرساری دنیا نے براہ راست دیکھا۔ انسانیت کے قاتلوں نے اصولوں اور جمہوریت کا قتل کردیا۔ انتخابی سال ہو توکسے مظلوم کشمیری اور 370 کے خاتمے کی باتیں یاد رہیں گی۔ ٹرمپ نے ایک بار پھر ہمیں سبق سمجھایا۔ لیکن شاید ہم نے بھی طے کررکھا ہے کہ ہم نے سبق نہیں سیکھنا۔نیویارک کے میڈلین سکوائر گارڈن میں خطاب کے بعد ’’ہاوڈی موڈی‘‘ یعنی’’ ہیلو موڈی‘‘ یا ’’مودی تم کیسے ہو؟‘‘ کے عنوان سے ٹیکساس ریاست کے شہر ہیوسٹن میں ان کا خطاب محض ایک جلسہ نہیں تھا بلکہ آنے والے زمانے کی تمہید ہے۔ ٹرمپ روایتی کرتہ پاجامہ پہنے مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پنڈال میں داخل ہوئے۔ این جی آر سٹیڈیم میں پچاس ہزار بھارتیوں کا یہ شو تھا جسے انڈیا کے باہر مودی کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیاگیا۔ ہیوسٹن کا جلسہ گاہ کے طورپر انتخاب اس لئے کیاگیا کیونکہ ہیوسٹن انڈیا کا چوتھا بڑا شراکت دار ہے۔امریکہ میں بھارتیوں کی تعداد بتیس سے چالیس لاکھ بتائی جاتی ہے اور اسے امریکی آبادی کا ایک فیصد مانا جاتا ہے۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ بھارتی امریکہ کے ان برادریوں میں شامل ہیں جو امیر ترین تصور ہوتی ہیں۔ٹیکساس رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ ہیوسٹن بڑی آبادی والا شہر ہے اور اس لحاظ سے یہ ساتواں بڑا شہر ہے۔ ٹیکساس آزاد جمہوریہ تھی جس نے میکسیکو سے آزادی حاصل کی تھی۔ ٹیکساس کے جھنڈے میں ایک ستارہ آج بھی ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیکساس کے نام کا معنی ’’دوستی‘‘ بتایا جاتا ہے۔
مودی نے خبث باطن کا مظاہرہ ان الفاظ میں کیا کہ ’’ امریکہ میں ستمبر 9/11یا ممبئی میں 26/11کے حملے، ان کی سازش کرنے والے کہاں پائے جاتے ہیں؟ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی اور اس کی حمایت کرنے والوں کے خلاف مل کر فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔‘‘مودی نے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ کے وائٹ ہاوس میں ہندوستان کا ’سچا دوست‘ موجود ہے۔ صدر ٹرمپ گرم جوش، قابل رسائی ، توانائی اور حس مزاح سے بھرپور دوست‘ ہیں۔‘‘ مودی نے ٹرمپ کے لئے رطلب للسان ہوتے ہوئے کہاکہ ’’سی ای او سے کمانڈر انچیف تک، اوول آفس سے گلوبل سٹیج تک ٹرمپ نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے مودی کو اپنا عظیم دوست بیان کرتے ہوئے ٹیکساس آمد پر خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ’’انڈیا کے وزیراعظم مودی امریکہ کے سب سے اچھے، قریبی اور وفادار دوستوں میں سے ہیں۔‘‘ اس دوستی کے لئے انہوں نے اپنی گرمجوشی کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ’’نومبر میں امریکہ اور بھارت کی افواج کی مشترکہ مشقیں ہوں گی۔‘‘ اس نے یہ بھی کہاکہ ’’ہم انتہاپسند اسلامی دہشت گردی سے تحفظ کے لئے پرعزم ہیں۔‘‘
مودی نے اس جلسے کے ذریعے سے وزیراعظم عمران خان کو جواب دیا ہے۔ عمران خان نے رواں سال جولائی میں دورہ امریکہ کے دوران بڑا جلسہ کیاتھا جسے امریکی تاریخ میں کسی بھی غیرملکی رہنما کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیاگیا تھا۔ گویا مودی نے اس جلسے کے ریکارڈ کو ایک بار پھر توڑا اور اسے اپنے نام کیا۔ یقینا یہ ایک بڑا جلسہ تھا لیکن اس جلسے اوراس میں کی جانے والی باتوں سے کئی اصولوں کو ذبح کردیاگیا۔ یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا میں دوستی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کے گرد ہی عالمی قانون، اصول، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور اس کی طاقت سجدہ ریز ہے۔ اگر اصول اہم ہوتے تو بل گیٹس فاؤنڈیشن مودی کو ایوارڈ کے لئے منتخب نہ کرتی۔ کسی غیر سے کیا گلہ کیاجائے کہ جب خوداپنے ہی مودی کے گلے میں ہار ڈال رہے ہوں۔ ہیوسٹن میں جہاں یہ جلسہ منعقد تھا، وہیں باہر پاکستانی، کشمیری اور سکھ برادری نے بھی زبردست مظاہرہ کیا۔ انسانی حقوق کے نمائندوں نے بھی اس میں شرکت کی۔ ’مودی قاتل‘ اور ’مودی واپس جاو‘ کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ بڑی گاڑیوں پر برقی سکرینوں پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی تشہیر بھی کی گئی۔ مظاہرہ کرنے والوں نے ہاتھوں میں کشمیر اور خالصتان کے جھنڈے، مختلف بینرز اور کتبے وغیرہ بھی اٹھارکھے تھے۔
مودی کے بھارت میں جو مظالم ہورہے ہیں ان کی گواہی ہیومن رائٹس واچ نے بھی دی جس کے مطابق گائے کے گوشت کے الزام میں مئی 2015ء سے دسمبر2018ء تک بھارت کی بارہ ریاستوں میں44 لوگ جنونی افراد کے اجتماعی تشدد سے ہلاک ہوئے، ہلاک ہونیوالوں میں چھتیس مسلمان تھے۔ 20 ریاستوں میں اسی نوعیت کے ایک سو واقعات میں دو سو اسی لوگ زخمی ہوئے۔ یہ سب اب بے معنی لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل معاملہ کسی ظلم کے اجاگر نہ ہونے کا نہیں ہے۔ اس غلط فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مظلوموں کی حالت زار اور مودی کے مظالم کا علم نہیں۔ دراصل بات کچھ اور ہے۔ جسے سمجھے بغیر نہ ہمیں ہمارا حق مل سکتا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کو ہی ان کا حق مل سکتا ہے۔ (جاری)