ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات !
بات چونکہ ناخوشگوار ماحول کی طرف بڑھ رہی تھی، اس لیے کرنل صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اُس کو بیٹھنے کیلئے کہا۔ مالکوں ا ور مزدوروں کے اختلافات اور جھگڑے روز کے معمولات تھے، لیکن مارشل لا سے قبل ان میں کچھ زیادہ شدت پیدا ہو گئی۔ ہر دو فریق اپنے اپنے موقف پر سختی سے ڈٹ گئے۔ شاید افہام و تفہیم سے کوئی مصالحت کا راستہ نکل لیکن مارشل لا کے نفاذ کو مالکان نے تائید ایزدی جانا ۔ چونکہ ہڑتالیں ممنوع قرار دیدی گئی تھیں، اس لیے انہوں نے مزدوروں کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ چنانچہ مزدوروں نے نہ صرف کام بند کر دیا بلکہ تمام گاڑیوں کو پہاڑ پر ہی روک لیا اور مالکوں کے جو کارند ے ڈی واٹرنگ پمپ چلانے گئے تھے، اُنکو بھی مار بھگایا۔ گہری کانوں سے پانی نکالنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے اور اگر چند دن کیلئے پانی نکلنا بند ہو جائے تو پوری کان کے بیٹھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کان کا بیٹھ جانا انفرادی نقصان کے علاوہ قومی دولت کے ضیاع کا بھی موجب بن سکتا ہے۔
مزدور عملاً سنجدی اور ڈگاری کے علاوہ دیگر ملحقہ کانوں پر بھی قابض تھے اور نوبت چونکہ فاقہ کشی تک پہنچ چکی تھی، اس لیے اِکا دُکا توڑ پھوڑ کے واقعات بھی رونما ہونے لگے۔ کرنل ملک لال خاں اور میں جب فوج کا ایک دستہ لیکر ڈگاری پہنچے تو صورتِحال خاصی مخدوش تھی۔ مزدوروں نے نہ صرف پہاڑ سے نیچے اُترنے سے انکار کر دیا بلکہ نعرے بازی بھی شروع کر دی۔ وہ مارشل لا سے قطعاً خائف نہ تھے۔ دراصل کسی نے انکے کانوں میں یہ بات پھونک دی تھی کہ مارشل لا کا نفاذ شہروں تک محدود ہوتا ہے اور اس کا عمل دخل پہاڑوں پر نہیں ہوتا… اُن دنوں فوج کے پاس چینی ساخت کی نسبتاً چھوٹی رائفلیں ہوا کرتی تھیں۔ کسی منچلے نے یہ ا فواہ بھی اُڑا دی کہ یہ پٹاخوں والی بندوقیں ہیں جو صرف ڈرانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں… اب ہمارے لیے دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ راست اقدام کیا جائے۔ اس صورت میں اُنہیں سرنگوں تو کیا جا سکتا تھا لیکن انسانی جانوں کا ضائع ہونا لازمی اَمر تھا، پھر اس قسم کے جھٹکے، مسائل کا مستقل حل بھی نہیں ہوتے۔ دوسرا غیر روایتی راستہ گفت و شنید کا تھا جو کٹھن اور لمبا ضرور تھا لیکن سلامتی کا نشان تھا۔ ہم دونوں سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ اشتعال انگیز نعرے بازی ہمیں پریشان نہیں کر رہی تھی۔ مالکوں کی مسلسل انگیخت کو بھی ہم نے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ نہتے اور ناسمجھ لوگوں پر ایک دم طاقت کا استعمال کسی طرح بھی جائز نہ ہو گا، چنانچہ بات چیت ہی کو ہم نے سب سے بڑا ہتھیار سمجھا اور یہ ہتھیار خاصا موثر ثابت ہوا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی مورچہ سر ہو جاتا۔ اگر آج سیف اللہ پراچہ کی کان پر دعائے خیر پڑھی جا رہی ہے تو کل ابراہیم بلوچ کی کان پر مزدور اور انتظامیہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی روز تک چلتا رہا۔ تھکن سے میرا بُرا حال ہو رہا تھا۔ کرنل صاحب تو خیر اس قسم کی زندگی کے عادی تھے۔ صبح پانچ بجے میں کوئٹہ پہنچتا۔ کرنل صاحب کو لیکر پہاڑ پر پہنچتے اور پھر رات بارہ بجے تک بغیر کھانا کھاتے کام کرتے۔کانفرنس کے دوران ا یک دن بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ کارروائی ختم ہوئی تو مجھے میر نبی بخش زہری اور سیف اللہ پراچہ ملے۔ میر صاحب کہنے لگے، ناظم صاحب (بلوچستان میں AC کو ناظم بولتے تھے) ہم آپ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ آج جو بھی دال ساگ پکا ہے آپ کھانا ہمارے ساتھ تناول فرمائیں۔ عرض کیا میر صاحب! جب آپ لوگوں کے پلائو کے دن تھے، ان د نوں تو مدعو نہ کیا ، اب دال ساگ کھانے سے تو رہا! دونوں جہاندید ہ شخص تھے چھپے ہوئے طنز کو بھانپ گئے اور ’’چلیے پھر کبھی‘‘ کہہ کر رخصت ہو گئے۔ قصہ مختصر ہم نے مزدوروں کا معاوضہ قریباً دُگنا کر دیا اور مالکان کو ہدایت کی کہ ’’لیبر لاز‘‘ پر سختی سے عمل کیا جائے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ بلوچستان حکومت کو چاہئے کہ اسی قسم کی کانفرنس کا پھر انعقاد کرے اور مزدوروں کی اشک شوئی نہیں بلکہ داد رسی کرے اور انہیں جائز حقوق دلوائے۔ (ختم شد)