قوم کی آواز خاموش ہورہی ہے؟
ریڈیوپاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی معرض وجود میں آگیاتھا اور جس طرح پاکستان نے انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے سفر کاآغاز کیاتھا، ریڈیوپاکستان نے بھی نہ ہونے کے برابر وسائل کے ذریعے نہ صرف تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کی آبادکاری میںصوتی محاذ پراپنا کردار ادا کیا بلکہ پاکستان میںمختلف اکائیوں کوایک لڑی میں پرو کرایک قوم کی شکل دی اور دشمن کے اس عزم کو کہ’’لولا لنگڑا‘‘ پاکستان چھ ماہ کے بعددوبارہ بھارت میں ضم ہوجائے گا، مٹی میں ملادیا۔مختصراً یہ کہ جنگ ہو یا قدرتی آفات ریڈیوپاکستان نے ہمیشہ اہم رول اداکیا ہے لیکن آج ایک فیصلے کے ذریعے ملازمین کا مورال ڈائون کیا جارہاہے۔
فواد چوہدری وفاقی وزیر اب ریڈیوپاکستان و ٹیلیوژن سمیت پوری وزارت اطلاعات و نشریات کے کسٹوڈین ہیں لیکن ریڈیوپاکستان ہیڈکوارٹرز کی عاجلانہ منتقلی کے بارے میں ان کے حالیہ فیصلے سے ان کے بارے میں منفی تاثر پھیلنا شروع ہوگیا ہے انہیں ریڈیوپاکستان کے بارے میں جو بھی اطلاعات دی گئی ہیں وہ حقائق کے برعکس اور غیر حقیقت پسندانہ اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔مثلاً فواد چوہدری نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ریڈیوپاکستان میں1950ٗء میںبڑے بڑے ٹرانسمیٹرز لگائے گئے لیکن اب ٹیکنالوجی کے اس دور میں ریڈیو ایک کمرے سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔اگر موصوف کا اشارہ اسلام آباد سٹیشن کی مشینری کی طرف ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ 1950ء میں اسلام آباد کو وجود تو کیاکسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔اسلام آبادکی تعمیر 1962ء میںشروع ہوئی، ریڈیوپاکستان کے نیشنل براڈکاسٹنگ ہائوس کا سنگ بنیاد27اپریل 1972ء کو رکھا گیا جبکہ20 سٹوڈیوز سمیت عمارت کی تعمیر اور مشینری کی تنصیب کے بعد ریڈیوپاکستان اسلام آباد کی نشریات 1977ء میں شروع ہوئیں جبکہ مرکزی شعبہ خبر جو پاکستان کی قومی اور علاقائی نیز غیر ملکی زبانوں سمیت 22زبانوں میں خبریں نشر کرتا ہے اور دن کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی زبان میں خبریں نشر نہ ہورہی ہوں، مئی 1983ء میں یہاں منتقل ہوا۔اس طرح وزیر اطلاعات کا یہ دعویٰ باطل ہوجاتا ہے کہ یہاں 1950ء کی مشینری نصب ہے۔
اس وقت ریڈیوپاکستان ہیڈ کوارٹرز کی عمارت سے پورے پاکستان کے ریڈیوسٹیشنز کے مرکزی شعبہ انتظامیہ و اکائونٹس اور ریڈیوپاکستا ن اسلام آبادکے علاوہ مرکزی شعبہ خبر، نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز چینل،شعبہ مانیٹرنگ،شعبہ پروگرام، شعبہ انجینئرنگ، صوت القرآن، ایف ایم۔ 93، ایف ایم 94- اورایف ایم۔101 نیزجدیدترین سہولیات کا حامل شعبہ آئی ٹی کام رہے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے ورلڈ سروس اور غیرملکی سامعین کیلئے انہی کی زبانوں میں نشریات کیلئے ایکسٹرنل سروس کے پروگرام بھی اسی سات منزلہ ہیڈکوارٹر میں تیار اور نشرکیے جاتے ہیں۔ انہی شعبوںمیں ایک شعبہ سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں ریڈیو کا میوزیم قایم ہے جہاں ریڈیوپاکستان کا تاریخی ورثہ محفوظ کیا گیا ہے۔ حال ہی میں برسوں کی محنت کے بعد کثیر رقم سے امریکہ اور جاپان کے تعاون سے جدید ترین ارتھ سٹیشن اور سٹوڈیوز تعمیر کیے گئے ہیں، اور سات منزلہ عمارت ناکافی ہونے کی وجہ سے ہارڈبورڈ کے ذریعے راہداریاں تقسیم کرکے پنشن برانچ اور دیگر شعبوں کووہاں منتقل کیا گیا ہے۔عالم یہ ہے کہ مرکزی شعبہ خبر کے لینگوئج ایڈیٹرز کو لینگوئج ہال کو تقسیم کرکے راہگزر میں بٹھا یا گیاہے جہاں نیوزبلیٹن کی تیاری کے حساس کام کے دوران ان کی توجہ بٹی رہتی ہے۔
ریڈیوپاکستان محض ایک نشرگاہ نہیں بلکہ مکمل میڈیا و پبلشنگ ہائوس ہے اور اسلام آباد میں اس کے ہیڈکوارٹر کی اسی سات منزلہ عمارت میں ماہنامہ آہنگ، انگریزی جریدہ پاکستان کالنگ اور پی بی سی نیوزلیٹر کے دفاتر بھی قایم ہیں۔ اسی طرح یہاں سے ایک مانیٹرنگ رپورٹ بھی شائع ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال سنوارنے میں اس کے کردار سے کیا جاسکتا ہے۔ ایک سابق صدر نے برملا اعتراف کیا تھا کہ انہیں ریڈیوپاکستان کی مانیٹرنگ رپورٹس کی وجہ سے مسئلہ افغانستان پر اقوام متحدہ میں 146ملکوں کی حمایت حاصل ہوئی۔اب ’’تبدیلی‘‘ کی علمبردار حکومت نے برسراقتدار آنے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس قومی ادارے کو مزید موثر بنانے کیلئے اس کی عمارت کو مزیدوسعت دینے اور اس کے ملازمین کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے اس کی ہیئت ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اورانتہائی عجلت میں ریڈیوپاکستان ہیڈکوارٹر کے عمارت کو خالی کرنے اور ایک ماہ کے اندر سیکٹر ایچ نائن میں واقع پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈیمی (پی بی اے)کی عمارت میں منتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔پی بی اے کی عمارت کی گنجائش کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نصف سے زائد عمارت اور وسیع لان 2000ء سے ایک کالج کے قبضے میں ہیں جبکہ ایک وسیع حصے پرانفارمیشن سروس کے پروبیشنرز کا ہاسٹل ہے۔ باقی بلڈنگ کے ایک حصے میں افسران کیلئے ایک انیکسی اور زیرتربیت سٹاف کیلئے گنتی کے چند کمرے ہیں۔اب حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے ریڈیوپاکستان فیملی میں گہری تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کیا موجودہ ہیڈکوارٹرزکی سات منزلہ عمارت میں برسوں کی محنت اور اربوں روپے کی لاگت سے قائم بے شمار شعبہ جات پی بی اے کے ایک منزلہ نصف بلاک (پانچ کمروں)میں سما سکیں گے؟اگرہیڈکوارٹرز کی عمارت میں کام کرنے والے1,500سے زائدریگولر ملازمین کے علاوہ شفٹوں میں کام کرنے والے ہزاروں کنٹریکٹ اور جزوقتی ملازمین بشمول نیوزریڈرز، انائونسرزاور اینکرپرسن وغیرہ ایک ہی وقت میں ڈیوٹی پرآگئے تو کیا وہاں تل دھرنے کو بھی جگہ رہے گی؟ کیا برسوں میں لگائی گئی مشینری کی منقلی ایک ماہ میں ممکن ہوگی؟ اس مشینری کو اکھاڑنے، منتقل کرنے اور تنصیب کے بعد اس کے چالو کرنے کیلئے بھاری رقوم اورطویل مدت درکار ہوگی، کیا اس سلسلے میں انتظامات کرلیے گئے ہیں۔کیا موجودہ عمارت میں قایم20سٹوڈیوز سے کی جانے والی نشریات سی آرآئی کے دو سٹوڈیوز سے ممکن ہو سکیں گی؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ سی آر آئی جس کی نشریات ایک معاہدے کے تحت پاکستان سے ہوا کے دوش پر جارہی ہیں اور جو پاک چین دوستی کی علامت ہیں،کو بیدخل کرکے چین کے ساتھ ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کو ہوا میں اڑادینے یا سمندروں میں ڈبو دینے کی متحمل ہوسکے گی؟
ہم ریٹائرڈلوگوں نے ریڈیوپاکستان کو اپنے خون سے سینچ کر موجودہ مقام تک پہنچایا ہے، اب نوجوانوں کا دور ہے اور ان کی سوچ ’’میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا‘‘ والی نہیں ہے۔ وہ ہماری اولاداور ہمارا خون ہیں اور سراپا احتجاج ہیں، ہماری ہمدردیا ں ان کے ساتھ ہیں کہ ’’ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے‘‘۔ہم اپنا گھر اجڑتا نہیں دیکھ سکتے، اس لئے حکومت ہمارے ان بچوں کو گھر نہیں دی سکتی تو بے گھر بھی نہ کرے۔