بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق
سعودی عرب اسلامی دنیا کا انتہائی اہم ملک ہے اس کی خوشحالی وترقی ناصرف سعودی عوام بلکہ عالم اسلام کے لیے باعث مسرت واطمینان ہے ۔قومی دن کے موقع پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اورولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان اورسعودی عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔سعودی عرب عالم اسلام کا دینی مرکز ہے ۔ اس کے قیام سے اب تک یہاں قرآن وسنت کی حکمرانی ہے ۔یوں تو آل سعود کی بہت سی خدمات قابل ذکرہیں لیکن شاہ فہد بن عبدالعزیز نے قرآن کریم پرینٹنگ کمپلکس کی بنیاد مدینہ منورہ میں رکھ کرانہوں نے دنیا بھر کو اسلام کا صحیح اور درست تصور پیش کیا ۔اسی کمپلکس سے دنیا کی 30زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے کرکے دنیابھرمیںمفت تقسیم کئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ احادیث نبویہ کے نشرواشاعت کیلئے بھی ان کی خدمات لائق تحسین ہیں ۔ اس سلسلے میں باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے ۔جو احادیث نبویہ کی تحقیق وتخریج کے امور کوانتہائی توجہ کے ساتھ انجام دیتا ہے ۔اپنی عوام کو تعلیم جیسی بنیادی اوراہم سہولت فراہم کرنے کے لیے سعودی حکومت نے تعلیم کے نظام کوجدید خطوط پراستوارکیاہے ۔ یوں تو سعودی عرب میں بیشترچھوٹے بڑے تعلیمی ادارے قائم ہیں ۔جہاں سے مقامی وغیرمقامی طلباء حصول علم کرتے ہیں۔لیکن ان کے علاوہ 35 یونیورسٹیاں قائم ہیں جہا ں لاکھوں مقامی اورغیرملکی طلباء کو بھی اسکالرشپ پرتعلیم فراہم کی جاتی ہے ۔جب کہ جامعہ اسلامیہ(اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ)میں 80فیصد غیرملکی طالب علموں کا کوٹہ مخصوص ہے
بے خطر کودپڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
ناموس رسالتؐ عشق کا معاملہ ہے یہاں پر عقل کی تمام سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں۔اور ویسے بھی عشق میں عقل کا گزر ہی ممکن نہیں۔اور عشق آقائے کل جہاں ؐ سے ہو تو وہاں پر سوال جواب ’’چہ معنی دارد‘‘
مغرب نے ایک نیا وطیرہ اختیار کر لیا ہے تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ مسلمانوں میں کتنی غیرت باقی ہے۔ کوئی نہ کوئی گستاخانہ حرکت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیںاور پھر منہ کی کھاتے ہیں۔اسی طرح ہمارے حکمران طبقے کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو حکمرانوں سے اس نوع کی غلطیاں کرواتے رہتے ہیں۔گذشتہ دور میں ختم نبوت ؐکے فارم میں الفاظ کی تبدیلی کا معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ نئی حکومت نے ایک قادیانی کو اکنامک ایڈوائزر ی کونسل کا ممبربنا دیا۔جس پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔حیرت ہے کہ اپنے آپ کو مجاہد ختم نبوت کہلانے والے اور بڑے بڑے جغادری اس کے حق میں ایسی ایسی دلیلیں لیکر آئے کہ جو خود عاطف میاں کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جہاں ایک طرف پوری قوم اور دوسری طرف چند نام نہاددانشور جو دور دور سے حوالے لے کر آ رہے تھے کہ الاماں و الحفیظ جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ جناب اس ملک میں تمام مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور یہ کہ یہاں ہر شہری کا برابر کا حق ہے تو پھر عاطف میاں کی مخالفت کیوں ہے؟
لیکن وہ کیا جانے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں،بات اگر اقلیت کی ہو تو کبھی بھی کسی ایک مسلمان نے کسی ہندو سکھ، پارسی یا عیسائی پر کوئی اعتراض نہیں کیا،پاکستان میں اقلیتوں کی ہر جگہ سیٹیںاوراسمبلیوں میں کوٹہ مختص ہے۔اس میں جہاں اور لوگ ہیں وہاں پر قادیانی بھی آ سکتے ہیں لیکن وہ نہیں آتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے۔یعنی وہ اپنے عقائد بھی رکھنا چاہتے ہیں اور اندر ہی اندر سے مسلمانوں کو دیمک کی طرح چاٹنابھی چاہتے ہیں۔
جو قوم ختم نبوت ؐکے حلف نامے میں ایک لفظ کی تبدیلی برداشت نہیں کر سکتی وہ ایک جیتے جاگتے قادیانی کو کیسے برداشت کر سکتی ہے۔پھر یہ مسئلہ حوالوں سے زیادہ محبت اور عقیدت کا معا ملہ ہے۔مسلمان کٹ تو سکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر کوئی حرف برداشت نہیں کر سکتا۔جب خود اللہ فرماتا ہے کہ کہ میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر سوال جواب اور کسی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں؟
اس مسئلے پر قوم تو مشتعل اور اپنے جذبات رکھتی تھی لیکن وہ لوگ داد کے مستحق ہیں جنہوں نے حکمران پارٹی کے اندر رہ کر اس کی مخالفت کی اور اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔اس میں اہم ترین کردار وفاقی وزیر مذ ہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کا ہے جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔اور لوگوں نے بھی اپنی اپنی جگہ پر زبان اور قلم سے اپنا کردار ادا کیا جن میں انجینئر افتخار احمد نمایاں ہیں۔اتفاق سے جس دن یہ فیصلہ آیا اسی دن محترم مولانا علی محمد ابو تراب کے ہمراہ وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری سے ملاقات ہوئی۔چونکہ میڈیا کے ذریعے ان کے کردار کے بارے میں معلوم ہوا تھا لہذا ان کو اس مسئلے کے حل پر مبارک باد پیش کی۔
ڈاکٹر نور الحق قادری 2002 سے 2013 تک ممبر قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر زکو ٰۃ و عشر بھی رہے ،انہوں نے ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔اتفاق سے ان کے دو اساتذہ سے بھی ان ہی دنوں میں ملاقات ہوئی جن میںاسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی وفاقی وزیر کے استاد رہے اور ان کو اپنا ہونہار شاگرد قراردیتے ہیں۔ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کو بلایا اور اس مسئلے پر رائے طلب کی۔قادری صاحب نے کہا کہ یہ مسئلہ انتہائی نازک ہے اور کہا کہ میں کوئی مفتی نہیں کہ فتویٰ دوں۔لیکن فوری طور پر جو بیان کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ قادیانی دو طرح کے ہیں،ایک پیدائشی اور دوسرے وہ جنہوں نے بعد میں اسلام کو ترک کر کے قادیانیت اختیار کی تا ہم اس کے شرعی یا غیر شرعی ہونے سے زیادہ یہ ہے کہ پاکستان کی مسلم سوسائٹی میں یہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔چونکہ یہ ناموس رسالت ؐ کا مسئلہ ہے۔ اور اس حوالے سے پا کستان کا معاشرہ انتہائی سخت اور حساس ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں نقصان زیادہ ہے یا فاعدہ اور ایک آیت بھی پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے۔
(البقرہ آیت219)اور اس میں جو گناہ(نقصان)ہے وہ نفع سے زیادہ ہے۔
ڈاکٹر نور الحق قادری کے دلائل پر عمران خان نے کہا کہ ہم ان کو امام نہیں بنا رہے اور نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئر مین… تو پھر کیا حرج ہے؟لیکن قادری صاحب نے کہا کہ اس مسئلے میں جہاں پوری عوام کی رائے ایک طرف ہے اور اس کی حساسیت زیادہ ہے۔لہذا اس کو ترک کر دینا چاہیے۔قادری صاحب کے زور دینے پر وزیر اعظم نے یہ تسلیم کر لیا کہ عاطف میاں کو ہٹایا جائے اورکہا کہ اسد عمر کو کہتے ہیں کہ وہ اس سے استعفی لے لیں اور آج یہ ہو گیامیرا یہ مانناہے کہ اچھی بات کی تائید ہونی چاہیے ،ایسے مواقع پر اپنی کھل کراپنی رائے کا اظہار کرنا اور آزادانہ حق کی بات برملا کہنا ہی اصل کام ہے۔ راولپنڈی کے ایک جو الیکشن بل کے موقع پر تو احراروں کو آواز دے رہے تھے اور بہت سارے دوسرے بھی لیکن اس موقع پرایسے سب نے چپ سادھ لی تھی۔تا ہم ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بروقت کلمہ حق کہا اور یوں ایک مسئلہ حل ہو گیا۔جو کام کرے اس کو کریڈٹ ملنا چاہیے۔امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئندہ بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔