علامہ عبدالستار عاصم نے مجھے بتایا کہ شہباز شریف نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر ’’ای لائبریری‘‘ بنائی جائے گی۔ اب اس پر عمل درآمد سردار عثمان بزدار کریں۔ عاصم صاحب نے وزیراعلیٰ کے مشیر برادرم اکرم چودھری سے بھی بات کی کہ وہ پچھلی صوبائی حکومت کی طرف سے اس اچھے اعلان پر عمل کرائیں۔
مشیر اکرم چودھری میرے بھی دوست ہیں امید ہے کہ اب بھی وہ مجھے کم از کم دوست سمجھتے تو ہونگے۔ ان کا تعلق برادر شاہد رشید اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے ہے۔ ان کے لئے ایک تقریب پذیرائی بھی یہاں ہوئی تھی۔ میں بھی اس تقریب میں شریک تھا۔ مجھے تو اکرم چودھری نے اب تک کوئی مشورہ نہیں دیا مگر اکرم چودھری اپنے پہلے مشوروں میں یہ مشورہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب کو دیں اور اس پر عمل درآمد بھی کروائیں۔ ورنہ بقول منیر نیازی؎
تیرے جیسے تو آتے رہتے ہیں
آتے رہتے ہیں جاتے رہتے ہیں
اکرم چودھری جذبے والے آدمی ہیں۔ کچھ کرنا بھی چاہتے ہونگے۔ اپنی تقریب میں انہوں نے پیشکش بھی کی کہ مجھے کوئی مشورہ دیں کوئی تجویز دیں۔ میں یہ بات بزدار صاحب کے سامنے رکھ دوں گا۔ یعنی میں انہیں مشورہ دے دوں گا۔
پرانی کتاب سے محبت کے حوالے سے سعدیہ قریشی نے ایک کالم لکھا ہے۔ نئی کتاب نہ ہو تو پھر پرانی کتاب کہاں سے آئے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ قدیم عظیم ہے۔ جدید ہو گا تو قدیم بھی ہو گا۔ اصل میں جدید و قدیم کے امتزاج سے بڑی قوموں کا اور بڑے لوگوں کا مزاج بنتا ہے اور وہی اعلیٰ مزاج ہوتا ہے۔
زلفی بخاری عمران خان کا دوست ہے۔ ایک متنازعہ بنائے گئے معاملے میں اس کا بہت ذکر ہوتا رہا ہے۔ اسے عمران خان نے نجانے کن خدمات کی بدولت اپنا مشیر بنا دیا ہے۔ عمران بہادر آدمی ہیں۔ نجانے بہادر حکمران بھی ہے کہ نہیں۔ابھی سے تحریک انصاف کے لوگوں نے اپنے لیڈر کا دفاع کرنا شروع کر دیا ہے۔ نعیم الحق کہتے ہیں کہ دوستوں اور رشتہ داروں کو حکومت دینے کا تاثر غلط ہے۔ یہ بات تو ماننے والی ہے کہ عمران اپنے رشتہ داروں کو وزیراعظم بننے سے پہلے بھی نظرانداز کرتے تھے۔ مگر دوستوں والی بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ اقربا پروری اور دوست نوازی میں کیا فرق ہے؟ نیا پاکستان کے پرانے ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ایک جملہ برادرم محمد ضیا الحق نقشبندی نے کہا ہے۔ اس کا عمران خان کے سعودی عرب کے نیم سرکاری اور کچھ کچھ ذاتی دورے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’’دورہ کرنا اچھی بات ہو گی۔ دورہ پڑنا تضحیک ہے۔‘‘ ولید اقبال پر امید رہتے ہیں مگر انہیں تحریک انصاف نے کسی نشست کے لئے ٹکٹ نہیں دیا۔ وہ اس پر بھی فخر کرتے ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ زلفی بخاری سمیت تمام تعیناتیاں میرٹ پر ہوئیں۔ پھر ولید اقبال کو ٹکٹ کیوں نہیں ملا۔
آج قبل از دوپہر برادرم عزیز الرحمن میرے گھر آ گئے۔ وہ م۔ ش کے داماد ہیں۔ ’’م ۔ ش کی ڈائری‘‘ کے نام سے محمد شفیع لکھتے تھے۔ دیر تک عزیز الرحمن پرانی باتیں کرتے رہے۔ م۔ش کی ملاقات مجید نظامی کے ساتھ بھی رہتی تھی۔ جس عمر میں مجید نظامی نے نوائے وقت کی ادارت سنبھالی تھی‘ تقریباً اسی عمر میں محترمہ رمیزہ نظامی نے نوائے وقت کی ادارت سنبھالی ہے۔
فواد چودھری نے بھی کہا ہے کہ زلفی بخاری کی تقرری درست ہے۔ عمران خان غیرملکی کو بھی اپنا مشیر رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ سعودی عرب کو نوازشریف سے کوئی ہمدردی نہیں۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ جب عمران خان ابھی سعودی عرب میں تھے تو نوازشریف رہا ہو گئے۔ اب زلفی بخاری کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بہرحال ایک قابل اعتماد مشیر ہیں۔ فواد چودھری کا ایک جملہ سمجھ میں نہیں آیا۔ نوازشریف کا جیل آنا جانا لگا رہے گا‘ پہلے بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر صدر جنرل مشرف کے زمانے میںوہ عدالتی فیصلے کے بغیر جلاوطن ہو گئے۔ وہ واپس آئے تو کچھ دیر میں وزیراعظم ہائوس جا پہنچے۔ وزیراعظم ہائوس میں بھی ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کلثوم نواز کیلئے عارف سندھیلہ کی تحریر دردمندانہ ہے۔ وہ مخلص (ن) لیگی ہیں۔
مجھے اتفاق ہے مجیب الرحمن شامی کی اس بات سے، کہ وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز اور دوسری شاندار سرکاری عمارتیں تبدیل نہ کی جائیں۔ تعمیر کرنے اور تبدیل کرنے میں بہت فرق ہے۔ مگر ان کی اس بات سے پورا اتفاق نہیں کہ یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ ہماری حکومتیں تاریخی ورثوں کیلئے غیر سنجیدہ ہیں۔ شامی صاحب کو ہم مرشد و محبوب مجید نظامی کے بعد ایک لیڈر صحافی سمجھتے ہیں۔
یہ عمارتیں گورنر کی رہائش کے علاوہ سیکرٹریٹ میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ سرکاری لوگ ہر عمارت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے میوزیم بنادیں گے۔ آخر کتنے میوزیم بنائے جائیں گے۔ پہلے جو میوزیم ہیں‘ کتنے لوگ ان میں شوق سے جاتے ہیں۔
آخر میں ایک مختلف بات کہ رونا اچھی روایت ہے‘ اسے کچھ کچھ عبادت بھی کہا جا سکتا ہے۔ میرے آقا مولا رسول کریمؐ نے فرمایا لوگو! رویا کرو‘ رو نہیں سکتے ہو تو روتے ہوئے لوگوں جیسی شکل بنا لو، کبھی کبھی ہنسنا بھی ٹھیک ہے، مسکرانا تو بہت ٹھیک ہے۔ میرے رسول کریمؐ مسکراتے تھے، مسکراہٹ کے بغیر ان کا چہرہ مبارک کسی نے نہ دیکھا تھا۔
’’شمشیر بے زنہار‘‘ کے نام سے ایک شاندار کتاب رائے امیر حبیب اللہ خان سعدی کیلئے ان کی بیٹی فریدہ جبیں سعدی نے لکھی ہے جس پر بہت ہی شاندار تبصرہ محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ اس پر لوگوں کی طرف سے بڑی محبت ملی مگر حکمرانوں نے انہیں نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب ایٹمی دھماکے ’’وزیراعظم‘‘ پاکستان نوازشریف نے کئے تو ایٹم بم بنانے والے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے محفوظ بنانے والے ڈاکٹر قدیر خان آخری صف میں کھڑے تھے مگر پاکستانیوںکی نظریں صرف انہیں تلاش کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ’’شمشیر بے زنہار‘‘ کیلئے لکھتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ایسی دستاویز ہے جسے بہت پہلے شائع ہونا چاہئے تھا۔ عزیزی فریدہ جبیں سعدی نے کرم فرمائی کی کہ اپنے والد گرامی کی یادوں کو قلمبند کیا۔ جناب سعدی کا شمار ہمارے ان مشاہیر میں ہوتا ہے جنہیں ہم نے ضائع کر دیا۔ وہ تحریک جمہوریت کے سلسلے میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں زخمی ہوئے۔ وہ ایک ایسے نابغہ تھے جو بے قدروں کی بستی میں پیدا ہو گئے۔ قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستارعاصم اور فاروق چوہان بھی شکریے کے مستحق ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024