عمران خان کے دورہ سعودی عرب کو موضوع بنانے سے پہلے اگر پاک سعودی تعلقات کا سرسری جائزہ لیں تو سعودی عرب کے بانی فرماں روا شاہ عبدالعزیز ابن سعود برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل اور دکھوں سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اس لئے آزادی کے حصول سے پہلے بھی اس خطے کے مسلمانوں کو سعودی حکومت کی دوستی اور بھائی چارے کی دولت حاصل رہی۔ 1943ء میں بنگال میں قحط پڑا تو شاہ عبدالعزیز نے قائداعظمؒ کو دس ہزار پاؤنڈ بھیجے تاکہ قحط زدہ مسلم بنگالیوں کی خوراک کا بندوبست ہو سکے۔ قیام پاکستان کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہونیوالی تھی تو مسلم لیگ کو اسلامی دنیا سے سیاسی و اخلاقی امداد کی ضرورت پڑی تو قائداعظمؒ نے اے ایچ اصفہانی کی قیادت میں ایک وفد سعودی عرب بھیجا جس کی سعودی عرب کے فرمانروا نے بڑی پذیرائی کی۔ دونوں ممالک کے درمیان 1951ء میں دوستی اور تعاون کا باقاعدہ معاہدہ ہوا۔ معاہدہ پر دستخط کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ امیر الفیصل نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان اور سعودی عرب کا معاہدہ دوستی تاریخی اہمیت کا حامل ثابت ہو گا اور آنیوالی نسلیں بھی اس سے مستفید ہونگی‘‘۔ 1954ء میں شاہ سعود نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستانی عوام نے ان کی آمد پر والہانہ انداز میں خوشیوں کا اظہار کیا۔ سعودی فرمانروا اپنے استقبال سے بے حد خوش ہوئے اور انہوں نے پاکستان کو اپنا گھر قرار دیا اور بڑے جذباتی انداز میں کہا ’’یہ جھنڈا میرا ہے میرے ملک کا ہے‘‘ دسمبر 1954ء میں انگلینڈ اور سعودی عرب میں نخلستان برائمی کا جھگڑا طے کرنے کے لئے ثالثی طریقہ کار میں سعودی عرب نے پاکستان کو بھی ثالثی کمیٹی کا ممبر نامزد کیا۔ پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر محمود حسین نے سعودی نقطہ نظر کو واضح کیا۔ سعودی عرب کے پاکستان پر اعتماد کا یہ ایک عمدہ مظہر تھا۔اس کے بعد 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کو سعودی عرب کی مکمل سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور فوجی و اقتصادی حمایت حاصل رہی ۔ اس کے بعد 1962ء میں جب شاہ فیصل سعودی عرب کے حکمران بنے تو انہوں نے اپنی پہلی ہی تقریر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا ذکر کیا۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کی خبر سن کر شاہ فیصل کے آنسو نکل آئے اور وہ دیر تک امت مسلمہ کی شکست پر روتے رہے اور انہوں نے کہا کہ یہ ایک سازش کا نتیجہ ہے جو اسلامی دنیا کیخلاف کی گئی ہے۔ شاہ فیصل پاکستان سے بے حد محبت کرتے تھے اور پاکستانی عوام بھی انہیں اپنا محبوب لیڈر مانتی رہی ہے۔ پاکستان میں ہر پانچویں بچے کا نام فیصل ہوتا ہے۔ لائلپور کا نام بدل کر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔ شاہ فیصل مسجد اور اسلامی یونیورسٹی کے کمپلیکس کی تعمیر کیلئے سعودی عرب نے مالی مدد کی۔اس کے بعد بھی پاکستان نے 1987ء میںسعودی حکومت کا ساتھ دیاجسے سعودی عرب کبھی نہیں بھلا سکتا۔
لیکن اس دوران گزشتہ حکومت کی چند ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس دیرینہ رشتے میں ہلکی سی دراڑ پیدا ہوگئی۔ پاکستان سعودی عرب تعلقات میں بھی سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ اور اب جب عمران خان حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب گئے وہ کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ثابت ہوا۔ اس دورے کے نتائج سے اُمید کی جا سکتی ہے کہ سرد مہری کا دور ختم ہوگااور عمران خان کے اس دورے کے بعدحالات نہ صرف معمول پر آجائیں گے بلکہ معمول سے ہٹ کر بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو سرکاری اور عوامی پیسے کا ضیاع روکنے کے احکامات جاری کیے اور خود بھی سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے چھوٹے گھر میں شفٹ ہوگئے اور وزیر اعظم ہائوس میں موجود اضافی گاڑیوں کی نیلامی کر نے کے احکامات جاری کیے۔ان تمام اقدامات سے قومی اور عالمی سطح پر عمران خان کی نیک نامی اورنیک نیتی کو شہرت ملی کہ وہ کچھ عوام کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔کرپشن کیخلاف جنگ کا مشن تو عمران خان کی وجہِ شہرت ہے۔ انکی ایمانداری پر تو مخالفین بھی انگلی نہیں اٹھا سکے۔سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان نے بھی کرپشن کیخلاف اقدامات کئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اور ولی عہد کرپشن کیخلاف ایک ناقابل برداشت رویہ رکھتے ہیں۔25 جولائی کو پاکستان میں آنے والی تبدیلی کو دنیا بھر میں محسوس کیا گیا۔عرب دنیا نے ایک خاص مسرت کا اظہار کیا۔سعودی عرب پاکستان کا عظیم دوست ہے۔سعودی عرب کا یہ اعجاز ہے کہ پاکستان کے ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔سعودی عرب کے سابقہ فرمانروائوں نے ہمیشہ پاکستان کو معاشی اور عالمی معاملات میں سپورٹ کیا ہے۔ان کی ایک خاص قسم کی رغبت اور محبت تھی جو ہمیشہ پاکستان کے لیے نظر آتی رہی۔یہ روایت پسندحکمراں پاکستان سے بے لوث محبت دکھاتے رہے ہیں۔پاکستان سے سعودی عرب کی دوستی کے میری نظر میں 2ہی اسباب ہیں۔ایک تو اسلام اور دوسرا پاکستان کی مضبوط افواج۔ان2 اسباب نے سعودی عرب اور پاکستان کو برادرانہ تعلقات میں باندھ رکھا ہے۔پاکستان کی افواج ہمیشہ سعودی عرب کے دفاع اور حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کے جذبے سے لبریز ہیں۔سعودی فورسز کی تربیت اور استعداد کار بڑھانے میں پاکستانی افواج اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔سعودی عرب چونکہ ہمارا بے لوث اور مخلص دوست ہے اس لیے ہمیں بھی ان کی مجبوریوں اور مشکلات کا احساس ہونا چاہیے۔ نئے حکمران ان دوستانہ تعلقات کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق نئے خطوط پر متعین کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔دنیا بھر میں اب نئی تقسیم،نئی دھڑے بندی اور نئے بلاک بن رہے ہیں۔امریکہ کی گرفت کمزور ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو فائدہ اُٹھانا چاہیے۔اس نئی دنیا میں سعودی عرب اور چین کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگی اور روس بھی اس بلاک کا حصہ بن جائیگا۔اس وقت پاکستان ان3 ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ کوششیں کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
میرا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان سعودی عرب سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں تعاون حاصل کرنے میں کامیا ب رہیں گے۔میرا تجزیہ یہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ،دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں کامیاب رہیں گے کیونکہ دونوں رہنمائوں کی کیمسٹری ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔دونوں ممالک کو اندرونی،علاقائی اور عالمی چیلنجز کا سامنا ہے ،جس میں سعودی عرب اپنی کامیاب سفارتکاری اور دانشمندانہ حکمت عملی سے تقریباًنکل چکا ہے۔پاکستان کے سابقہ حکمرانوں نے ہمیشہ ذاتی تعلقات کو فروغ دیا اور ریاستی مفادات کو خاص توجہ نہیں دی۔عمران خان کا دورہ سعودی عرب ایک کامیاب دورہ ہوگا۔اس میں دونوں سربراہان اپنی مکمل دوطرفہ دوستی کو پروان چڑھانے میں کامیاب رہیں گے۔پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت میں عمران خان نے سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم سعودی عرب کو ہر حال میں انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔پھر مدینہ منورہ میں حاضر ہو کر یہ بھی پیغام دیا کہ ہم نبی پاکؐ کے ساتھ بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ ہمارے تعلقات صرف دنیاوی نہیں بلکہ ہم مذہب ،محبت اور عقیدت میں بندھے ہوئے ہیں۔
اگر اہم پاک چین اقتصادی راہداری کی بات کریں تو پاکستان کا سعودی عرب کو تیسرا شراکت دار بنانے کا اعلان انتہائی خوش آئند ہے کہ اس سے ایک اور آزمودہ دوست کی رفاقت میسر آجائے گی جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔یہ اتنا بڑامنصوبہ ہے کہ اس کے وسیع تر ہوتے چلے جانے سے دنیا کے کم و بیش 5درجن ممالک اس کا حصہ بن جائیں گے اور یہ ملک پاکستان کے حلیف ہوں گے۔ اور امریکا کی طرف سے بھی کولیشن سپورٹ فنڈ کو بند کیے جانے پر لگتا یہی ہے کہ انہیں غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر کامیابی کی جانب سفر شروع کردیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے ملکی مفاد کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا ہے ۔ اور ہم عمران خان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مفاد کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ کیوں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی اگر بات کی جائے تو جلدیا بدیر بھارت کو یہ احساس ہو جائے گا کہ اسے برابری کی سطح پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ بھارت کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ پاکستان کے بغیر اس خطے میں امن و امان ،اپنے عوام کو سہولتیں اورملک کو معاشی ترقی کے دور میں داخل نہیں کر سکتا۔مگر بھارت کے حوالے سے مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
لہٰذااگر بھارت اس بات کو سمجھنے کے لیے آگے بڑھے گا تو پاکستان کے لیے بھی یہ شاید کامیابی کی نوید ہوگی کہ وہ بھی اپنے عوام کو بہتر سہولتیں اور ماحول فراہم کرسکے گا۔ اوراگر پاکستان کی موجودہ حکومت آنے والے چند مہینوں یا سالوں میں یہ کام کرپاتی ہے جس سے خطے میں امن و امان اور پاکستان کی ذاتی حیثیت برابری کی سطح پر طاقتور ملک کے طور پر سامنے آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ آزادی کے بعد یہ سب سے بڑا تحفہ ہوگااور میری طرف سے حتمی رائے یہی ہے کہ عمران خان کا دورہ سعودی عرب ہی آغاز ہے اچھے دور کا اور یہی نوید ہے نئے پاکستان کے لیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024