شہرہ آفاق عوامی شاعر حبیب جالب نے چوہدری ظہور الٰہی شہید کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا جو آج چوہدری ظہور الہٰی کی37ویں برسی پر یاد آرہا ہے
آبرو پنجاب کی تو، شان پاکستان کی
پیار کرتی ہے تجھے دھرتی بلوچستان کی
سندھ کی دھڑکن ہے تو،سرحد کی تو آوازہے
تیرے دل میں قدر ہے ہر اک جری انسان کی
سر نہیں تونے جھکایاظلم کی دہلیز پر
قوم کی خاطر لگا دی تونے بازی جان کی
لوگ کیا کیا بک گئے ،تو نے نہیں بیچے اصول
تیرے دامن کو بہت ہے دولت عشق رسولﷺ
یہ25 ستمبر 1981 ء کی دوپہر کا واقعہ ہے چوہدری ظہور الٰہی کی شہادت کی خبر پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی میں اور شیخ رشید احمد نامور خطیب ، صحافی و دانشور آغا شورش کاشمیری کی صاحبزادی صوفیہ شورش مرحومہ کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور آئے تھے صوفیہ شورش کی بارات کی تقریب بھی غم میں تبدیل ہوگئی مولانا کوثر نیازی مرحوم بھی اس تقریب میں شریک تھے ان کی چوہدری ظہور الہی سے دوستی تھی اسی تقریب میں جناب مجید نظامی مرحوم بھی موجود تھے ۔ سبھی چوہدری ظہور الٰہی کی خوبیاں بیان کر رہے تھے۔ مجھے ناصر باغ لاہور میں ہی چوہدری ظہور الٰہی شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کا موقع ملا وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں میرے علاوہ سینئر صحافی سعود ساحر اور اکرام الحق شیخ کا چوہدری ظہور الٰہی شہید سے گہرا تعلق تھا چوہدری ظہور الٰہی پاکستان میں دہشت گردی سے شہید ہونے والے پہلے سیاست دان ہیں ان کا جانثار ڈرائیور محمد نسیم بھی ان کے ساتھ ہی جاں بحق ہو گیا چوہدری ظہور الٰہی اپنی مرسڈیز کار کی اگلی نشست پر سوار تھے جب کہ پچھلی نشست پر مشہور زمانہ جج سا بق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ایم اے رحمنٰ ایڈوکیٹ بیٹھے تھے یہ وہی مولوی مشتاق حسین تھے جنہوں نے نواب احمد خان کے قتل میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی چوہدری ظہور الٰہی کے ڈرائیور محمد نسیم کی کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے جو اس کی وفات کے بعد چوہدری شجاعت حسین نے پوری کر دی دریائے چناب کے کنارے گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’نت وڑائچ ‘‘ سے شروع ہونے والی’’ کہانی‘‘ ابھی ختم نہیں ہوئی چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری وجاہت حسین اس کہانی کے اہم کر دار ہیں انہیں چوہدری ظہورالٰہی سے وراثت میں سیاست ملی ہے جسے انہوں نے سنبھال رکھا ہے اب یہ سیاست تیسری نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔
چوہدری سالک حسین ، چوہدری مونس الٰہی چوہدری حسین الٰہی اور چوہدری شافع حسین کو منتقل ہو رہی ہے ۔ مجھے چوہدری برادران کی تین نسلوں کی کوریج کا اعزاز حاصل ہے ۔ سیاست کا موسم سرد ہو یا گرم ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہیں چوہدری برادران مسلم لیگ(ن) میں ہوں یا مسلم لیگ (ق) کی قیادت ان کے پاس ہو یا پھر وہ عمران خان کے’’ اتحادی‘‘ بن جائیں ان کے ساتھ ہمیشہ احترام کا رشتہ رہا ہے میرے نظریات کے بارے میں بخوبی علم ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ پر جوش انداز میں ملاقات کی۔
25ستمبر1981ء ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ دن ہے جب ایک دہشت گرد تنظیم ’’الذالفقار‘‘ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالف چوہدری ظہورالٰہی کو شہید کر وایا گیا چوہدری ظہور الٰہی شہیدایک ’’سیلف میڈ ‘‘ سیاست دان تھے انہوں نے کسی فوجی حکومت کی ’’نرسری‘‘ میں پرورش پا کر سیاست میں بلند مقام نہیں پایا بلکہ وہ ایوب خان کے مارشل لاء میں ’’ایبڈو‘‘ کی زد میں آنے والے سیاست دانوں میں شامل تھے وہ ان تین سیاست دانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ایبڈو کی پابندیوں کو چیلنج کیا مجھے یاد ہے جب تک چوہدری ظہور الٰہی زندہ رہے اپوزیشن کے روح رواں رہے ان کی رہائش گاہ 99ویسٹریج راولپنڈی جو میرے غریب خانہ سے چند قدم کے فاصلہ پر ہے اپوزیشن کی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی انہوں نے ایک عام شخص کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن محنت ، کمٹمنٹ اور قربانی کے جذبے سے ملکی سیاست میں بلند مقام پایا ۔ ان کے والد محترم چوہدری سردار خان وڑائچ کو صوفیانہ شاعری سے لگائو تھا ۔ چوہدری ظہورالٰہی نے 1950ء میں میدان سیاست میں قدم رکھا تو دنوں میں پورے ملک کی سیاست پر چھا گئے انہوں نے اپنے پیچھے جو’’ سیاسی ورثہ ‘‘ چھوڑا ہے آج بھی ان کی اولاد اسی کا پھل کھا رہی ہے چوہدری ظہور الٰہی میں ’’جاٹ ‘‘ قوم کی ذہانت اور بہادری کی تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں وہ پاکستانی سیاست میں جرات و استقامت کی علامت تھے ان جیسی جرات و استقامت کے حامل سیاست دان انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں چوہدری ظہور الٰہی دوستوں کے دوست تھے اور قبر تک دشمنی نبھاتے تھے ذوالفقار علی بھٹو سے دوستی تھی تو ان کی تصویر اپنے ڈرائنگ روم میں سجالی لیکن اختلاف رائے ہوا تو دشمنی کی شکل اختیار کر لی اور پھر چوہدری ظہور الٰہی شہید نے ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی ان کے تختہ دار پر لٹکانے تک نبھائی ذولفقار علی بھٹو نے بھی چوہدری ظہور الٰہی کو مروانے کے لئے کوہلو جیل میں ڈال دیا لیکن بہادر بلوچ سردار اکبر بگٹی نے نہ صرف چوہدری ظہور الٰہی کی حفاظت کی بلکہ ذولفقار علی بھٹو کے تمام عزائم ناکام بنا دئیے ۔
گجر ات کے جاٹ دوستی اور دشمنی نبھانے کی شہرت رکھتے ہیں اس کی لاج رکھنے کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں چوہدری برادران نے بڑی حد تک اپنے خاندان کی روایات کو برقرار رکھا ہے ۔ چوہدری ظہورالٰہی شہید جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے رکن تھے جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کی توثیق کی تھی کہا جاتا ہے جنرل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم پر جس قلم سے دستخط کئے تھے وہ چوہدری ظہور الٰہی شہید نے لیا تھاممکن ہے یہ قلم آج بھی چوہدری شجاعت حسین کے پاس محفوظ ہو لیکن چوہدری خاندان ایسے یادگار قلم کی موجودگی کی تردیدکرتا ہے جو جنرل ضیا ء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے پروانہ پر دستخط کے لئے استعمال کیا ہو وہ کار آج بھی گجرات میں ظہور الٰہی پیلس میں محفوظ ہے جسے الذولفقار کے دہشت گردوں نے کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا مجھے یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو ’’ سیاسی دشمنی ‘‘ختم کرنے کے لئے ظہور پیلس گجرات آنا چاہتی تھیں جہاں چوہدری شجاعت حسین نے ان کے سر پر چادر پہنانی تھی لیکن چوہدری ظہور الٰہیٰ شہید کی صاحبزادیاں ’’سیاسی صلح‘‘ کی راہ میں حائل ہو گئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ظہور پیلس میں استقبال کی تقریب منسوخ کرنا پڑی ۔
چوہدری ظہور الٰہی نے پیپلز پارٹی کی فسطائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہ چوہدری ظہور الٰہی ہی تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے اجلاس ان کی رہائش گاہ 99ویسٹریج۔راولپنڈی میں ہی ہوا کرتے تھے چوہدری ظہور الٰہی کے دم سے پارلیمنٹ کی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کی وجہ سے پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا آباد ہوا کرتی تھی مہمان نوازی میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اپوزیشن کے کئی رہنما ئوں کو’’ مالی امداد ‘‘کے لئے ان کی چوکھٹ پر حاضری دیتے دیکھا ہے چوہدری ظہور الٰہی اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان دوستی کی ایک وجہ ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی بھی تھی بعد ازاں اس دوستی کو اگلی نسل چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الٰہی اور اعجاز الحق نے نبھایا ۔ چوہدری ظہور الٰہی نے ملکی سیاست میں بہادری کی جو داستانیں چھوڑی ہیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں ان کو ایک کالم میں قلمبند کرنا ممکن نہیں ۔ انہوں نے جس دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپوزیشن کی ہے اس میں جان کی قربا نی دینا پڑتی تھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کا شمار مقبول ترین سیاسی رہنما ئوں میں ہوتا تھا ممکن تھا ذوالفقار علی بھٹو اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے تو وہ زیادہ عرصہ تک میدان سیاست میں رہتے لیکن انتقام کی آگ نے انہیں تختہ دار تک پہنچانے میں دیر نہ لگائی جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء نے ملکی سیاست میں جو گند ڈالا ہے وہ کسی ڈھکا چھپا نہیں لیکن اس کا سب سے بڑا جرم مسلم لیگ (ن) کے دو ٹکڑے کر نا ہے جس سے ملک کی نظریاتی اساس کمزور ہوئی اس نے شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان ایسے فاصلے پیدا کر دئیے جو آج بھی ختم ہی نہیں ہو پا رہے جب جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا لگا دیا تو اس وقت بیگم کلثوم نواز اسلام آباد میں چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر قیام کیا کرتی تھیں
چوہدری برادران اس وقت اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر قدم نہیں رکھا کرتے جب تک بیگم کلثوم نواز وہاں قیام پذیر ہوا کرتی تھیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں شریف خاندان کی خواتین کو گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوا تو وہ روز نامہ نوائے وقت کے معمار جناب مجید نظامی کے گھر آگئیں مجھے جناب مجید نظامی نے بتایا کہ جب چوہدری شجاعت حسین کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ان کے گھر آگئے اور یہ کہہ کر دیکھتے ہیں ہماری بہو بیٹیوں کی طرف کون آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ شریف خاندان کی خواتین کو اپنے ساتھ لے گئے لیکن پچھلے 18،19سال میں پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ گیا ہے شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان فاصلے کم نہیں ہو پا رہے چوہدری برادران نے اپنے باپ کے قاتلوں کو تو معاف کر دیا ’’ نواز شریف دشمنی‘‘ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنے رہے سیاسی ضرورتوں نے چوہدری برادران کو عمران خان کے قریب تر کر دیا لیکن شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان فاصلے ختم کرانے والا کوئی شخص نہیں اگر یہ دونوں خاندان اکھٹے ہو جائیں تو پنجاب میں انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا چوہدری ظہور الٰہیٰ شہید ایک وضع دار شخصیت تھے مہمان نوازی کوئی ان سے سیکھے ان کے عظیم باپ چوہدری ظہور الٰہی کی خوبیوں کی جھلک نظر آتی ہے خو ش گفتاری اور حس مزاح ان کی شخصیت کا پر تو ہے میں نے ان سے کم و بیش 40سالوں پر مبنی دوستی میں کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی شریف خاندان سے شدید اختلافات کے با وجود ہمیشہ ان کے بارے مثبت انداز میں گفتگو دیکھی میں نے چوہدری پرویز الٰہی جیسا ’’ صحافی دوست‘‘ سیاست دان بھی کم ہی دیکھا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب ہائوسنگ فائونڈیشن قائم کر کے بلا امتیاز راولپنڈی ، لاہور اور ملتان کے پریس کلبوں کے ارکان کو سر چھپانے کی جگہ دی اسے چوہدری پرویز الٰہی کی خوبی کہیں یا کمزوری وہ دوست کی اپنے ’’دشمن ‘‘ سے دوستی برداشت نہیں کرتے وہ نواز شریف سے دوستی رکھنے والے اخبار نویس دوستوں سے برملا اپنی ’’ناراضی ‘‘کا اظہار بھی کر تے رہتے ہیں چوہدری ظہور الٰہی شہید نے ملکی سیاست میں شاندار روایات قائم کی ہیں ان کا وسیع دسترخوان تھا وہ ایک غریب پرور سیاست دان تھے غریب آدمی کی مدد کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے ان کے سیاسی وارثوں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا ہے آج کے دور کے سیاسی کارکن اور صحافی چوہدری ظہور الٰہی شہید کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں چوہدری برادران کو پنجاب کی یونیورسٹی میں ان کی چیئر بنوانی چاہیے اورسیاسات کے طالبعلموں کو ان پر ڈاکٹریٹ کرنے کی ترغیب دینی چاہیے ۔
’’چاچا خواہ مخواہ‘‘
May 09, 2024