برطانوی وزیر داخلہ کا دورہ پاکستان
پاکستانی نژاد برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کے حالیہ دورہ پاکستان کی برطانوی سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہونے والی غیرمعمولی پذیرائی کی ایک وجہ پاکستان اور برطانیہ کے وہ دیرینہ گہرے اور دوستانہ تعلقات ہیں جہیں باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے درمیان قائم مضبوط روابط نے لازوال دوستی میں ڈھال رکھا ہے۔ کالم کے آغاز میں ساجد جاوید کو پاکستانی نژاد میں نے اس لئے کہا کہ ساجد ضلع ساہیوال کے ایک گائوں کا وہ سُپوت ہے جس نے اپنی خداداد قابلیت، محنت اور صلاحیتوں کی بنا پر اپنے محنت کش والد کی دی گئی تربیت سے بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہوئے اپنی تعلیم و ترقی کے مواقع خود تلاش کئے۔ والد جنہوں نے برطانیہ میں اپنی ملازمت کا آغاز پہلے فیکٹری ورکر سے اور بس ڈرائیور سے کیا اور جن کی محنت کی گواہی وضع دار گورے گوریاں آج بھی دیتے ہیں اپنے اس بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور یوں ان کا یہی ہونہار بیٹا برطانیہ میں آج وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھال چکا ہے جسے پاکستانی تو اپنے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کرتے ہیں؟ جبکہ ساجد قطعی اس حق میں نہیں کہ برطانیہ کے کسی بھی اہم ترین عہدے پرفائز ہونے کے لئے محض پاکستانی، افریقی، یہودی ، عیسائی یا دنیا میں بسنے والی کسی بھی نسل کا حوالہ دیا جائے ؟ یہی وہ شاید بنیادی وجہ بھی ہے کہ لندن کے پاکستانی نژاد میئر صادق خان کی طرح ساجد جاوید نے بھی پاکستانی میڈیا کو ایک مخصوص فاصلے تک رکھا ہوا ہے۔ ہوم سیکرٹری ساجد جاوید کے جہاں تک پاکستانی دورے کا تعلق تھا تو دورہ کی بنیادی وجہ پاک برطانیہ کے مجرموں کے تبادلے کا معاہدہ، بدعنوانی کی ہنگامی بنیادوں پر فوری روک تھام اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈائون ایسے اقدامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے ان کا اعلان کرنا تھا۔ ساجد جاوید نے وزیراعظم عمران خان سمیت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، گورنر پنجاب چودھری سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر اور وزیر مملکت برائے داخلہ آفریدی سے بھی خصوصی ملاقاتیں کرتے ہوئے دونوں ممالک میں شروع کئے گئے احتسابی عمل کو تیزتر بنانے پر اتفاق کیا۔ برطانوی ہوم سیکرٹری کا کہنا تھا کہ علاقائی امن و استحکام اور پاک برطانیہ تعلقات کے امن و استحکام کیلئے یہ مل ناگزیر ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں پائی گئی بدعنوانی اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کرنے کیلئے برطانیہ تیار ہے جبکہ معلومات اور انٹیلی جنس تبادلہ میں بھی پاکستان اور برطانیہ کو اہم قدم اُٹھانا ہو گا اس لئے اس معاہدے کی تجدید کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تاکہ پاکستان ا ور برطانیہ میں سزا کاٹنے والے قیدیوں کو اُنکے اپنے ملک میں سزا کاٹنے اور اپنے عزیز واقارب اور خاندانوں کے قریب رہنے کے مواقع دستیاب ہو سکیں۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے معاہدے کے بارے میں ساجد جاوید کا کہنا تھاکہ اس عمل کو یقینی بنانے کیلئے ایک ایسا برطانوی مندوب برائے انصاف اور احتساب تعینات کیا جا رہاہے جو پاکستان اور برطانیہ کے مابین جلد متوقع اپریشنل معاملات میں خصوصی اور اہم رول ادا کریگا۔ اس طرح دونوں ممالک میں مجرموں کی حوالگی کے حوالہ سے بھی ایک باقاعدہ معاہدہ کی راہ ہموار ہوئی ہے جس سے مستقبل قریب میں برطانیہ میں پاکستان کو مطلوب شخصیات کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جا سکے گا؟ اب جس روز سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کاحق حاصل ہوا ہے وہ پُھولے نہیں سما رہے پاکستانی سیاست میں وہ ا پنے ’’ولایتی جوہر‘‘ دکھانے اور جلد از جلد پروٹوکول حاصل کرنے کیلئے بھی بے تاب نظر آ رہے ہیں۔ووٹ کا حق اُنہیں کیا ملا؟ اپنی بڑھتی سیاسی خواہشات پر قابو پانا ان کیلئے ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ حکومت پاکستان کے بھجوائے سرکل کیمطابق اوورسیز پاکستانیوں کو آن لائن ووٹ رجسٹر کروانے کی آخری تاریخ 15 ستمبر 2018ء تھی مگر حیرت اس بات پر ہوئی کہ دنیا بھر میں تلاش معاش کیلئے سرگرداں ان 5 لاکھ 20 ہزار پاکستانیوں میں سے صرف 7 ہزار 4 سو پاکستانیوں نے آن لائن اپنا ووٹ رجسٹر کروایا جو حوصلہ افزا تعداد میں بیشتر وٹروں کی کمپیوٹر سسٹم سے عدم دلچسپی اور بعض دیگر تکنیکی مسائل تھے۔ الیکشن کمشن اور نادرا نے آن لائن ووٹنگ سسٹم کو گو مسائل سے پاک قرار دیا تاہم الیکشن کمشن کو اس سسٹم پر لگائی بھاری رقوم سے مبینہ طور پر نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے…؟ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آن لائن ووٹنگ کا جب ذوق ہی نہیں رکھتی ت و اتنی بڑی رقم ضائع کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ میرا ایک مسلم لیگی دوست جس نے اپنے عہد شباب کے 60 برس مسلم لیگ کے 8 دھڑوں کو یکجا کرنے میں صرف کر دئیے مگر کامیابی پھر بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اپنا ووٹ رجسٹرڈ ہونے پر کچھ زیادہ ہی خوش نظر آیا۔ پوچھا محض ووٹ رجسٹرڈ ہونے پر اتنی خوشی کیوں؟ جواب اس کا یہ تھاکہ آئندہ ماہ 37 قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کم ازکم یہ تو آگاہ کر سکوں گا کہ آئندہ ضمنی الیکشن میں اسے بھی ایم ۔ پی ۔ اے یا ایم ۔این ۔ اے بننے کا موقع فراہم کیا جائے کہ اپنے مسلم لیگی دھڑے کی خدمت کرتے ہوئے انگلستان میں خریدا اپنا مکان، کاروبار اور حتیٰ کہ اپنی صحت تک کو اُس نے پارٹی کیلئے وقف کر دیا اور اب جبکہ ووٹ کا حق بھی مل چکا ہے تو مجھے بھی وزیر، مشیر بننے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ کیوں نہ ابھی سے کوشش کا آغاز کروں…!
دوست کی اس سادگی…ووٹ کے حق کے بارے میں قائم سوچ اور اسکے فیوچر سیاسی پلان پر چاہا قہقہ لگائوں مگر پروٹوکول کے نشہ میں چُور اپنے اس دیہاڑی دار دوست کے سیاسی جذبات کو میں ہرگز مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا چنانچہ میں نے اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جسم کے تمام ’’جوڑ‘‘ جب جواب دے چکے‘ صحت دعائوں کی محتاج ہو چکی‘مالی حالات تبدیل ہو گئے تو ایسے حالات میں ایم ۔ پی ۔ اے ، ایم ۔ این ۔ اے، وزیر ، مشیر یا پھر خصوصی معاون بننے کے خواب دیکھنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے سے ز یادہ کچھ نہیں؟ دوست نے مسکراتے ہوئے اقرار تو کیا مگر پھر بول اُٹھا کہ پاکستانی سیاست کے چسکے کے ہاتھوں مجبور ہوں؟ کیا کروں۔ ٹھیک ہے اگر واقعی یہ چسکا اور ’’سواد‘‘ لینا تمہاری مجبوری ہے تو پھر مسلم لیگی دھڑے کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف جوائن کر لو کیونکہ محترم زلفی بخاری کو وزیراعظم عمران خان نے اپنا خصوصی معاون برائے اوورسیز پاکستانیز منتخب کر لیا ہے۔ بخاری صاحب بھی چونکہ برطانوی پاکستانی ہیں اسلئے اوورسیز پاکستانیوں کے حوالہ سے وہ پاکستانیوں کے مالی، معاشی اور اقتصادی مسائل کے موثرحل کیلئے بہترین سٹریٹجی پیش کرسکیں گے۔ بہتر ہے اُن سے رابطہ قائم کر کے ا پنی خدمات پیش کر دو۔ اب یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہو گا کہ زلفی بخاری صاحب عمران خان صاحب کو معتمد ساتھی ہی نہیں برطانیہ کی ایک بڑی کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ اس لئے اوورسیز پاکستانیوں کو ان سے یہ توقع ضرور ہے کہ اب کی بارپاکستان اور میزبان ممالک کے حوالہ سے پیدا اُنکے مسائل یقیناً حل ہو جائینگے۔ ’’ریاست مدینہ‘‘ سمیت اوورسیز پاکستانیوں کا یہ بھی توایک خواب ہے۔