’’امن کی خواہش دہشت گردی کی نظر‘‘
امن معاشرے کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام’’ معاملات ‘‘معمول کے ساتھ بغیر کسی ’’پر تشدد اختلافات ‘‘کے چل رہے ہوں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس خطے میں ایسے ہی’ امن ‘‘کی خواہش کا اظہارکیاتھا ،جسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے’’ مسترد‘‘ کر دیا ہے۔ امن کا’’ تصور‘‘ کسی بھی معاشرے میں’’ صحت مند‘‘ مثبت بین الاقوامی یا بین الا نسانی’’ تعلقات‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امن کے باعث ہی معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوت اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر امن’’ تباہ‘‘ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالات، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے ہمسائے ملک کا جائزہ لیں تو یہ تمام عوامل وہاں پائے جاتے ہیں ۔اس کے باوجود مودی سرکار کا سلامتی کونسل کا مستقل ممبربننے کے لیے بھاگ دوڑ کرنااچنبے کی بات ہے ۔اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطہ اخلاق پیش کیا، جس کا نام ہی ’’اسلام‘‘ رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں۔ اسلام نے مضبوط بنیادوں پر’’ امن وسکون‘‘ کے ایک نئے باب کاآغاز کیا اور پوری ’’علمی واخلاقی قوت‘‘ اور’’ فکری مندی‘‘ کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی۔اسلام ظلم کوکسی حالت میں اور کسی بھی نام اور عنوان سے’’ برداشت‘‘ نہیں کرتا۔ وہ اپنے فرزندوں کو جان، مال ومذہب، عقیدہ، وطن، مذہبی مقدس مقامات، شعائر دین، مساجد ومعابد وغیرہ کی حفاظت، ان کے دفاع اور کسی بھی طرح کی تعدی سے بچاؤ کی’’ تدبیر ‘‘کرنے کا ’’ناگزیر‘‘ حکم دیتا ہے اور ان ساری سازشوں کو ناکام بنادینے کا انہیں پابند بناتا ہے۔اسلام میں’’ ظلم ‘‘کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا زیادہ ’’موزوں ‘‘ہوگا کہ اسلام دنیا میںآ یا ہی ہے’’ ظلم کے استحصال ‘‘اوراس کی’’ بیخ کنی‘‘ کے لیے ہے۔ اسلام امن کے لیے وہ لائحہ عمل تشکیل دیتا ہے، جس کی روشنی میں’’ ممکنہ حد ‘‘تک قوت اور برداشت کے ذریعہ مظلوم کی ’’دستگیری‘‘ کی جائے اور ظالم کو’’ ظلم ‘‘سے روکا جائے۔عمران خان نے اسی قائدے کے مطابق بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں جاری ’’ظلم وستم‘‘ سے روکنے کی بات کی ہے ۔تو مودی سرکار’’تلملا ‘‘اٹھی ،اور عمران خان کو ٹویٹ کرنا پڑاکہ ’’میں نے پوری زندگی ادنیٰ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پرقابض ہوتے دیکھا ہے، یہ لوگ بصیرت سے عاری اور دوراندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں، بڑے عہدے پر بیٹھے چھوٹے شخص کی سوچ چھوٹی ہی رہتی ہے‘‘اس کے بعد’’ بلی تھیلے ‘‘سے باہر آگئی،اوربھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پاکستان کو’’ گیدڑ بھبھکی‘‘ دی کہ پاکستانی فوج سے بدلہ لینے کا وقت آگیا، پاکستان کو انکی ہی زبان میںجواب دیا جائیگا۔ پاکستان وہی کر رہا ہے جو کرتا آیا ہے مزید اقدامات کئے جائیں گے ،ہم اپنی اگلی کارروائی کی تفصیلات نہیں بتاسکتے۔ پاکستان کو سرپرائز دیں گے۔جواب آں غزل کے طور پر بھارتی آرمی چیف کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ جنرل بپن راوت کا بیان انتہائی نامناسب ہے۔ پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کیلئے تیار ہیں۔ امن و امان کی صورتحال خراب نہیں کرنے دیں گے۔ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار بنایا گیا، کسی نے صبر کا امتحان نہیں لیا تو قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج نے پاکستانی قوم کو کبھی بھی مایوس نہیں کیا ۔دہشت گردی کی طویل جنگ میں پاک فوج نے دشمن کو’’ خاک چٹا ‘‘دی ہے ۔جبکہ بھارت 71سال سے اپنے ملک میں جاری’’ شورشوں‘‘ پہ قابو نہیں پا سکا ۔ہمارے ہی ابائو اجداد نے 1857ء کی جنگ آزادی میں وقت کے دو بڑے سامراجوں ’’ انگریز اور برہمن سامراج‘‘ کوتاریخی شکست دے کر آزادی حاصل کی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مسلمان آج بھی اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ’’ہمہ وقت‘‘ تیار ہیں ۔ وطنِ عزیز پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو برہمن سامراج نے یہ پروپیگنڈاشروع کر دیا کہ یہ نوزائیدہ مملکت محض چند برس کی مہمان ہے۔اْنہوں نے صرف اِسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی اِس ’’مکروہ سوچ‘‘ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ہر منفی ہتھکنڈہ بھی اپنایا۔ہمیںکشمیر ، جونا گڑھ اور مہاجرین کی آمد جیسے ’’گھمبیر مسائل‘‘ میں الجھایا گیا۔ لیکن نہایت’’ دگرگوں‘‘ حالات کے باوجود بفضلِ رب تعالیٰ یہ نوزائیدہ ریاست ہندووںکے’’ سینے پر مونگ‘‘ دلتے ہوئے رفتہ رفتہ مستحکم ہوتی گئی۔اور الحمد اللہ ایک ایٹمی قوت ہے ۔بھارت میں انتخاب ہو ں یا نہ۔لیکن جب بھی بی جے پی کی حکومت آئی ہے ،اس نے پاکستان کے ساتھ حالات کو معمول پہ نہیں آنے دیا ۔
ّّ’’دوستوں سے تلخیوں کا خاتمہ ‘‘
؎پاکستان نے سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ہماری حکومت کی یہ بہت ہی’’ اچھی پالیسی‘‘ ہے ۔ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات بڑے مضبوط ، گہرے اور’’ تاریخی حیثیت‘‘ کے حامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاک سعودی ’’دفاعی معاہدے ‘‘بھی باہمی تعاون کے ’’متقاضی ‘‘ہیں، سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں کھڑے ہو کر پاکستان کے ساتھ’’ برادرانہ تعلقات‘‘ کو استحکام بخشا۔1965ء کی جنگ میں شاہ فیصل کا پاکستان کی مدد کرنا ' شاہ خالد کا پاکستان کے لیے F-16کی خریداری میں تعاون کرنا، شاہ فہد کا 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد 5سال مفت تیل فراہم کرنا ' شاہ عبداللہ کا 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے وقت سب سے بڑھ کر پاکستان کی مدد کرنا برادرانہ تعلقات کا ہی’’ ثمر ‘‘ہے۔اب شاہ سلمان نے سی پیک منصوبے میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی بات کی ہے ۔پاک فوج اور سعودی عرب کی افواج کے درمیان تعاون کا سلسلہ بھی بہت دراز ہے۔ سعودی فوج کی تربیت میں بھی پاک فوج نے اہم کردار اد ا کیا ہے۔ 1990کی خلیج جنگ کے دوران پاکستانی دستے سعودی عرب میں تعینات تھے ، جہاں وہ محاذ جنگ تک’’ رسد اور حرمین شریفین ‘‘کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ا سلامی اتحادی افواج کے سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت نے سابق پاکستانی جرنیل کا انتخاب کیا۔ سعودی عرب کی خواہش پر جنرل (ر) راحیل شریف دہشت گردی کے خلاف اسلامی اتحادی افواج کے سربراہ بنے ہیں۔ یقینا ایسا دونوں ممالک کی قیادت کا آپس میں’’ مضبوط رشتہ‘‘ اور دیرینہ تعلق کی بنیاد پر ہوا ہے۔ آج تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے اور دونوں ممالک پر خطرات کے ’’بادل منڈلاتے‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت نے ایک بار پھر مل بیٹھ کر حالات کا جائزہ لے کر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی بات کی ہے ۔ تاکہ دونوں ممالک کے عوام کو دہشت گردی کے خطرات سے بچایا جا سکے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات تاریخی ، ثقافتی اور اقتصادی روابط پر مبنی ہیں، یو اے ای کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانا بھی خوش آئند ہے ۔