سی پیک" چین ، پاکستان اورسعودیہ
پا ک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کا سہ روزہ دورہ کیا جس میں اپنے ہم منصب کے علاوہ دیگر چینی رہنمائوں سے باہمی دلچسپی خصوصا سی پیک کے حوالے سے پھیلنے والی افواہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اس عظیم منصوبے کی تکمیل کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ جنرل باجوہ کا دورہ ان عالمی رپورٹ کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کی سی پیک کے حوالے سے سردمہری کے اظہار کا انکشاف کیا گیا تھا ۔ دراصل یہ سازش اس عظیم عالمگیر منصوبے کے نتائج سے خوف زدہ امریکہ اور یورپی میڈیا کی بوکھلاہٹ کا شاخشانہ ہے کیونکہ ون روڈ ون بلٹ کی تعمیر سے چین کی تین براعظموں تک اقتصادی دسترس ہو سکے گی۔ جس رفتار سے یہ منصوبہ تکمیل پذیر ہوگا اسی تیزی سے امریکہ کی عالمی بالا دستی سکڑ تی و سمٹی چلی جائے گی لہذا امریکہ اسے سبوتاژ کرنے کے لئے کسی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کریگا ۔ یاد رہے کہ اس عظیم منصوبے کا دوسرا بڑاحصہ دار پاکستان ہے تو اس کے ثمرات اور فیوض پاکستان ہی نہیں پورے خطے پر منطبق ہونگے جو ہمارے ازلی دشمن بھارت کو قبول و برداشت نہیں ۔ دشمن کا دشمن دوست کے اصول کی بنیاد پر امریکہ بھارت سی پیک کے حوالے سے ایک صفحہ پر دکھائی دیتے ہیں ۔ بھارت اور مغربی میڈیا نے کچھ عرصہ سے اس عالمگیر منصوبے کے خلاف شدید مہم کا آغاز کر رکھا ہے ۔ان کے مطابق یہ سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔ اس سے صرف چین کی تجارت پروان چڑھے گی او رپاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا ۔فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق پاکستان ون روڈ اینڈ ون بلٹ منصوبے پر نظر ثانی کا خواہش مند ہے ۔ مضمون میں پاکستان کے مشیر تجارت رزاق دائود کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ سی پیک کے کچھ منصوبے پاکستان کے لئے مفید نہیں ہیں اور پاکستان ان منصوبوں سے متعلق مذاکرات کا خواہش مند ہے ۔رزاق دائود نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے سیاق و سباق کے منفی قرار دیا ہے یعنی یقینی طور پر ایسا سوچنا پاک چین دونوںممالک کے لئے پریشانی کا باعث تھا ۔ سی پیک کے خلاف مہم میں امریکی وزیر دفاع جیمز میکس نے کہا کہ یہ منصوبہ متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان سے گزرے گا ۔ امریکہ کی جانب سے منصوبے کی تائید مزید ان کے وزیر خارجہ پیمپیو کے اس بیان سے ہوتی ہے کہ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف پروگرام چینی قرضوں کی واپسی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ سی پیک کے بدخواہوں کو اس امر کا ادراک نہیں کہ پاک چین دوستی باہم اعتماد و اعتبار کی ان منزلوں تک پہنچ چکی ہے جہاں خدشات و شبہات کی رسائی ممکن نہیں ۔پاکستانی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت سی پیک کی تکمیل کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہے گی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ہماری حکومت سی پیک پروجیکٹ کی سٹریجٹک پوزیشن اور قومی اہمیت کا پورا ادراک ہے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے چینی حکومت کو یقین دلایا کہ بڑی احتیاط اور ذمہ داری سے سی پیک کے منصوبے پر کام کریں گے ۔
علاوہ ازیں آرمی چیف کے دورہ چین کے موقع پر چینی صدر کی خواہش پر خصوصی ملاقات کا اہتمام ہوا ۔ اس موقع پر خطے کی سیکیورٹی ،درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر تبادلہ خیال ہوا ۔ چینی صدر نے کہا کہ پاکستان ہر آزمائش پرپورا اترنے والا دوست ہے ۔ پاک فوج نے پاک چین تعلقات میں ہمیشہ اہم کردار کیا ہے ۔انہوں نے پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرتے ہوئے خطے میں امن کے لئے پاک فوج کے کردار کو سراہا ۔ صدر شی چی پنگ نے کہا کہ سی پیک کی مخالفت کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہونگے ۔ یہ عالمی امن اور ترقی کا اہم منصوبہ ہے جس سے پورا خطہ مستفید ہوگا ۔ہم بطور سٹرٹیجک پارٹنر پاکستان کی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے ۔ جنرل باجوہ نے اپنا قومی موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کی اہمیت کا ادراک رکھتا ہے ۔ ہم نے حصول امن کے لئے بیشمار قربانیاں دی ہیں ۔ ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کو ضرور کامیاب بنائیں گے ۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ پاک فوج سی پیک راہ داری کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرے گی ۔ سی پیک کے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں مزید طاقتور ہونا ہوگا۔ دونوں سربراہوں کی ملاقات سے اس عظیم منصوبے کو نئی قوت اور عزم ثمیم ملا ہے اور دوسری جانب بدخواہوں کو یہ پیغام بھی پہنچا کہ ان کے عزم ہمیشہ تشنہ رہیں گے ۔جاری منصوبوں کی تکمیل کے بعد پورا خطہ باہم مواصلات کی ایک جدید اور پائیدار سلسلے سے مربوط ہو جا ئے گا۔ ونوں کا سفر جب گھنٹوں میں طے ہوگا تو ترقی کے پہیئے کی تیز رفتاری دیدنی ہوگی ۔ دونوں سربراہوں کے مشترکہ بیان سے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوا ۔ دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کا دورہ سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک کے غیر متزلزل تعلقات میں مزید تقویت کا باعث تو بنا مگر سی پیک کے حوالے سے یہ دورہ سونے پہ سہاگہ ثابت ہوا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے زمام حکومت سنبھالنے کے بعد پہلے دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیا ۔وزیر اعظم نے اعلیٰ سطح وفد کے ساتھ پہلے روضہ رسول ﷺپر حاضری دی پھر عمرہ اد اکیا ۔ بعد ازاں خادمین حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس میں سعودی عرب نے سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کے سلسلے میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے پندرہ ارب ڈالرز کے پیکج کی خواہش کا اظہار کیا گیا جس کے جواب میں سعودی حکو مت دس ارب ڈالر دینے پر ضامند ہوگئی ۔ یہ رقم اقتصادی منصوبوں کی شکل میں پاکستان کو ملے گی ۔ خبر کے مطابق سعودی عرب گوادار میں آئل سٹی تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو سی پیک کا اہم حصہ ہے ۔ پہلے آئل سٹی منصوبہ چین تعمیر کرنا چاہتا تھا ۔ یاد رہے پاکستان پہلے ہی آئل سٹی کے حوالے سے چینی قیادت کو اعتماد میں لے چکا ہے ۔اب پاکستان اور چین کے علاوہ سعودی عرب بھی اس عالمگیر منصوبے کا تیسرا بڑاشراکت دار ہوگا جس سے اس عالمگیر منصوبے کو مزید اہمیت اور فوقیت حاصل ہوگی ۔