تبدیلی مقررہ حدود میں رہے گی
کالم نگار کی رائے میں اب وقت آن پہنچا ہے کہ اشاروں کنایوں کی بجائے سیدھی صاف بات کی جائے ۔ تحریک پاکستان کیلئے لفظ ’جنگ آزادی‘ استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ ویسے یہ کوئی ٹینکوں توپوں والی جنگ نہیں تھی ۔ یہ سیدھی سادی قانونی جنگ تھی جو بیرسٹر محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ایک سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے بڑی کامیابی سے لڑی ۔ اس ملک کی پیدائش کے پہلے روز ہی فوج ایک مکمل ادارے کی شکل میں موجود تھی جبکہ دیگر ادارے ابھی زیر تعمیر تھے ۔ ’’میں اپنے ایک دوست یا بھائی کے برابر کھڑا ہوں۔ اس کے ہاتھوں میں بندوق ہے جبکہ میں خالی ہاتھ ہوں۔ ہم دونوں دوست یا بھائی ہیں۔ میرے مسلح دوست یا بھائی کے مقابلہ میں میری طاقت ، میری دیانت اور پاکیزگی ہے ‘‘۔یہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔ آزادی کے پہلے روز ہی حضرت قائد اعظمؒ کو ایک نوجوان فوجی افسر کو ڈانٹنا پڑا۔ ایئر مارشل اصغر خاں کے مطابق اس نے شکایت کی تھی ۔ ’’اہم عہدے ماضی کی طرح ہی غیر ملکیوں کو دیئے جا رہے ہیں۔ تینوں جنگی سروسز میں برطانوی افسران کو سربراہ بنا دیا گیا ہے ۔ ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ پاکستان کے امور یوں چلائے جائیں گے ‘‘۔ اس پر قائد اعظم نے اپنے سخت جواب میں افسر پر واضح کر دیا کہ وہ یہ حقیقت نہ بھلائے کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ قومی پالیسی سویلین بناتے ہیں اور یہ سویلین کا کام ہے کہ ان فرائض کا تعین کریں جو مسلح افواج کو تفویض کئے جانے ہیں۔ بابائے قوم کے اس جواب کو مزید تگڑا ان کی دیانت کر رہی تھی ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ان کے بعد آنے والے دیانت اور امانت کا یہ معیار قائم نہ رکھ سکے ۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں ہوتی ۔یہ کئی اور طرح سے بھی ہو سکتی ہے ۔ لیاقت علی خاں کا دامن کسی بھی قسم کی مالی کرپشن سے آلودہ نہیں تھا۔ لیکن جب وہ اپنی حکومت کی مخالفت کو ریاست کی مخالفت قرار دے رہے تھے تو وہ کسی دیانت کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے ۔ ایسی کرپشن مالی کرپشن سے کسی طور کم نہیں ہوتی ۔پھر ہر قیمت پر اقتدار میں رہنے کی خواہش بہت سے کرپٹ لوگوں کی کرپشن نظر اندا ز کرنے کا موجب بھی بنتی ہے ۔ ان حالات میں آپ ریاست کے دیگر اداروں سے کتنی دیانت، ذمہ داری اور اخلاقیات کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور برطانوی پبلک ریکارڈ آفس کی خفیہ دستاویزات ہماری تاریخ کے کئی خفیہ گوشوں کوبے نقاب کرتی ہیں۔ 23دسمبر 1952ء کو امریکی قونصل خانہ لاہور کی ایک خفیہ ٹیلی گرام کے مطابق جنرل ایوب خاں نے انہیں بتایا کہ وہ پاکستان کے سرکردہ سیاستدانوں کو یہ بتا چکے ہیں کہ انہیں دل کی گہرائیوں کے ساتھ مغرب کے ساتھ چلنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے ۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ پاک فوج سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دیگی اور وہ پاکستانی عوام کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھیں گے ۔ 28فروری 1953ء کو بھجوائے گئے ایک پیغام کے مطابق جنرل ایوب خاں نے انہیں بتایا کہ فوج سیاست میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ مگر فوج یہ بھی نہیں چاہتی کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فوج پاکستان میں استحکام کی ضمانت ہے اور وہ سیاستدانوں کی نان سینس کو برداشت نہیں کرینگے ۔ اب برطانوی فوجی ادارہ سینڈھرسٹ کے کیڈٹ ایوب خاں کے نزدیک نان سینس کے اللہ جانے کیا معنی تھے ورنہ نہرو سے مشرقی پاکستان کے بیروباری کی سرحد سے ناجائز ہندوستانی قبضہ مذاکرات سے ختم کروانا اور گوادر کی بندرگاہ کا سودا بہر حال ایک سیاستدان ملک فیروز خان نون کاکارنامہ تھا۔ کتابیں ہمارے سیاستدانوں نے بھی لکھی ہیں اور فوجی جرنیلوں نے بھی ۔ لیکن ابھی تک صاف گوئی صرف فوجی مصنفوں کے حصے میں آئی ہے ۔ ایڈمرل افتخار سروہی اپنی آٹو بائیوگرافی ’’سچ سمندر‘‘ میں یہ لکھتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ انہیں لاہور سے خورشید محمود قصوری اور مسز مہناز رفیع یہ بتانے اسلام آباد پہنچے تھے کہ وہ مسز بھٹو کو متناسب نمائندگی کے ذریعے کیسے ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ انہیں سیاستدان بینظیر بھٹو اور محمد خان جونیجو قابل قبول نہیںتھے ۔بھٹو فیملی کی عوامی مقبولیت اور جونیجو کی سوزوکی کار پالیسی ذہن میں رکھیں۔ ایڈمرل سروہی نے یہ بھی لکھا کہ اقتدار بینظیر بھٹو کو ہماری یہ حسب ذیل پانچ شرائط ماننے کے بعد دیا گیا۔ ۱۔ افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ ۲۔ ایٹمی پالیسی میں کوئی ردو بدل نہیں کیا جائیگا۔۳۔ ڈیفنس پالیسی حسب معمول جاری رہے گی ۔ ۴۔ سول سروس کے انتظامی ڈھانچہ میں کوئی مداخلت نہیں کی جائیگی۔ ۵۔ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔پانچویں شرط میں جنرل پرویز مشرف کو عدالتوں میں بلوانے کا مطالبہ کرنے والوں کیلئے بہت کچھ موجو دہے ۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے دور میں ہی کیا گیا ہے ۔ بہر حال یہ کریڈٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ایک سیاسی اجتماع میں ریفری کی انگلی اٹھنے کاذکر کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کے زمان پارک لاہور سے وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد تک کے سفر کی لمبی کہانی ہے ۔ مسافر نوازوں کو چھوڑیں ۔ یہ ہر مسافر کو سفر میں بہتیرے میسر آجاتے ہیں، کوئی سفر کیلئے گھر سے باہر نکلے تو سہی۔ ’’گھر سے نکلے، راہ میں پاشا مل گیا اور بے تحاشا مل گیا ‘‘کہہ کر سارا کریڈٹ صرف ایک بندے تک پہنچانا پورا سچ نہیں۔ ن لیگی قیادت کا مغلئی مزاج ،بے تحاشا شاہانہ حکومتی اخراجات ، کرپشن ، عمران خان کی مستقل مزاجی ، شخصی گلیمر ، ایمانداری اور ہاں ریفری کی اٹھتی ہوئی انگلی بھی ، بہت کچھ اس اقتدار کی منزل تک پہنچ جانے والوں کے پاس زاد راہ کے طور پرموجود تھا۔ عمران خان کا سارا منشور صرف ٹیکس نکلوانے اور کرپشن روکنے کی راہ سے ملک میں تبدیلی لانے کا ہے ۔ یعنی انقلاب کے بغیر پر امن تبدیلی ۔ زمین کی حد ملکیت مقرر کئے بغیر تبدیلی ۔مخدوم زادہ حسن محمود جنہیں پچھاڑ کر میاں نواز شریف’’ تخت لہور ‘‘کی جنگ جیتے تھے ،انہیں اتفاق فائونڈری کے باعث لوہار کہا کرتے تھے ۔ میاں نواز شریف نے اپنے تازہ حریف عمران خان کے ساتھ وہی لوہاروں والی ہی کی ہے ۔ ’سو سنار کی ایک لوہارکی ‘۔ نواز شریف جاتے جاتے کسی نان فائلر کیلئے گاڑی کی رجسٹریشن اور پچاس لاکھ روپوں سے زائد قیمت کی جائیداد خریدنے پرپابندی لگا کرعمران خان کو تبدیلی کی اصلی راہ پر ڈال گئے ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی ملک کے اصلی حکمرانوں ، آپ انہیں اسٹیبلشمنٹ بھی کہہ سکتے ہیں ، کو’’ وارہ‘‘نہیں کھاتی ۔ سو ضمنی فنانس بل2018 کے تحت یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے ۔یہ پابندی ختم کرتے ہوئے تبدیلی والے عمران خان کوپاکستان میں غربت کی اصل وجہ سمجھ میں ضرور آگئی ہوگی اور سیاستدانوں کی بے بسی بھی۔ شعیب بن عزیز کا یہ شعر کتنا برمحل ہے …؎
ہمت بلند تھی مگر افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محو دعا ہو گیا ہوں میں
اب تحریک انصاف کی ساری تبدیلی کاروں ، بھینسوں کی نیلامی ، زلفی بخاریوں اور عون چوہدریوں کی تقرری تک محدود ہو کر رہ جائیگی۔