ڈیمز اور چیف جسٹس آف پاکستان
عزت مآب چیف جسٹس نہ پہلی مثال ہیں اور نہ آخری’ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے بھی اس وطن کی مانگ میں سندور بھرنے کی جسارت کی، اس پر خون آشام دوڑادئیے گئے۔ کسی کی عزت پر حملہ ہوا تو کسی کو روندنے کے دیگر مکروہ ہتھکنڈے بروئے کار آئے۔
ہم نے دیکھا کہ پورے ملک میں جانے، کریہ کریہ نگرنگر پھرتے، گاڑی روک کر عوام کے دکھوں کے کانٹے اور فریادوں کے زخموں پر مرہم رکھتے پاکستان کے ایک بیٹے کی یہ لگن کتنی گراں گزر رہی ہے۔ لاڑکانہ بار جناب چیف جسٹس تشریف لے گئے تھے جہاں بعض وکلاء کا رویہ دیکھ کر انتہائی دکھ، رنج اور تکلیف ہوئی۔ وکلاء تحریک میں ہم بھی شامل تھے۔ سندھ ساگر کے جام لنڈھاتے فلسفانہ رہنما اعتزاز احسن کی لے نے ہمیں بھی سرشار کردیاتھا۔ میں اعتزاز احسن سے سوال کرتا ہوں کہ کیا وکلاء کے چمن میں اب ایسے کانٹے ہی رہ گئے ہیں۔ کیا اختلاف کرنے، اپنی بات بیان کرنے کے دیگر قرینے، ڈھنگ اور سلیقے ہم بھول گئے ہیں۔
سندھی زبان کی مٹھاس اور ادب ولحاظ کو یکسر تیاگ کر، قلندر کی دھرتی سے اب ایسی ہی آوازیں اٹھیں گی؟ ڈیم کے حامیوں کو مغلظات سے نوازنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو ارض وطن کا کھا کر بھارت کو اپنے عمل سے فائدہ پہنچارہے ہیں۔ لسانی یا کسی بھی دوسری تفریق کا حامی نہ ہوتے بھی، پنجاب کا ایک ادنی باسی ہونے کے ناطے کیا یہ سوال اعتزاز احسن کے ذریعے ان نادان وکلاء سے پوچھنے کی اجازت ہے کہ پاکستان میں ڈیمز کیوں نہ بنیں؟؟ ڈیمز نہ بنا کر ہم کس کو پیاسا مارنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں؟؟ کاش نعرے لگاتے یہ ’سپتر‘ بھارت کو حرامی قرار دیتے جو ایسے نعرے لگانے والوں کی تلاش میں رہتا ہے کہ ان پر انعام واکرامات کی بارش کرکے پاکستان کے راستے میں کانٹوں میں اضافہ کرے۔ میں پاکستان بار کونسل سے پوچھتا ہوں کہ کیا پورے ادارے، قانون وانصاف کے اس عزت دار منصب پر یوں کیچڑ اچھالنا انہیں قبول ہے۔ ورنہ انہیں چاہئے کہ اس معاملے کا نوٹس لیکر متعلقہ وکلاء کیخلاف تادیبی کاروائی کریں۔ لاڑکانہ بار کے ذمہ داران سے پوچھا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ بار اور سندھ بار کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ خود سینئر اور باشعور وکلاء کو اس کا نوٹس لینا چاہئے بات اختلاف کی نہیں۔ یہ ہر فرد کا حق ہے لیکن محض کسی کے جذبہ صادق پر اسے بے ننگ ونام افراد کی طرف سے دشنام طرازی کا نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔ ہمارے لئے ہر وہ شخص گاندھی کی اولاد کا درجہ رکھتا ہے جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکے۔ ایک فریاد پیمرا کی جانب سے بھی جاری ہوئی۔ زرا ایک نظر پڑھ لیں۔
’’گزشتہ چند روز کی مانیٹرنگ کے دوران یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ خبروحالات حاضرہ نشرکرتے چینلز چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی جانب سے قائم کردہ ’’دیا مر بھاشا ڈیم فنڈ‘‘ سے متعلق سیاستدانوں، تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین کا توہین آمیز تجزیہ کسی ادارہ جاتی کنٹرول کے بغیر نشر کررہے ہیں۔ یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اس نوعیت کے تجزیے اعلی عدلیہ کے خلاف بہتان تراشی کے زمرہ میں آتے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی مشاہدہ کیاگیا ہے کہ نیوز ٹی وی چینلز حالات حاضرہ کے پروگراموں میں اعلی عدلیہ سے متعلق بھی توہین آمیز تبصرے، تجزیے باربار نشر کرہے ہیں۔‘‘
پیمر ا نے یاد دلایا کہ ٹی وی لائسنس حاصل کرنے والی کی ذمہ داری ہے کہ ’’عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف بہتان تراشی نہ ہو۔ زیر سماعت معاملات پر معلوماتی انداز اختیار کیاجائیگا۔ اس امر کو یقینی بنایاجائیگا کہ اسکے نمائندے، میزبان اور پروگرام کے پروڈیوسر پروگرام نشر یا ریکارڈ ہونے سے پہلے پروگرام کے مواد کا جائزہ لے کر یقینی بنائیں گے کہ یہ مواد ضابطہ اخلاق کی روح کے مطابق ہے۔ پروگرام نشر کرنے اور سامعین تک اسکے پہنچنے کے درمیان مناسب وقفہ رکھنے کے اصول کو لاگو کیاجائیگا تاکہ قانون کی پاسداری یقینی ہو۔‘‘
ایسے پریس ریلیز سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار میں پڑھ چکا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب گالیاں دی جارہی ہوں تو پیمرا سوالی بن کر رال ٹپکاتا رہے گا؟ حضور قانون کی عملداری کرائی جاتی ہے۔ یہ خود بخود نہیں ہوتی۔ ریاست کے ایک آئینی منصب دار کی توہین کا مطلب دستور کی توہین ہے۔ ایک پورے ادارے کی توہین ہے۔ پیمرا مردہ گھوڑا نہ بنے۔ اقدامات اٹھائے یا پھر پریس ریلیز جاری کرنے بند کردے۔ کاش چوہدری رشید جیسا مرد میداں میسر آجائے ورنہ پیمرا اس منجھے افسر سے کوئی شدھ بدھ ہی لے لے۔
حرف آخر میڈیا کے ہمارے کرم فرماؤں اور عالی جناب ساتھیوں سے بھی عرض ہے کہ خدارا باریک سیاست کھیلنے والوں کے وار سے بچیں۔ اپنے پاؤ گوشت کیلئے وہ پورا بکرا حلال کرادیتے ہیں۔ اچھا کام جو بھی کرے، اس کا ساتھ دیں کیونکہ وہ پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ آدھا گلاس خالی پر شورمچاتے کہیں ہم آدھا بھرا ہی نہ گرادیں۔
ایبٹ آباد سے شوکت یوسف طاہر خیلی کا تکنیکی قسم کا گرامی نامہ ڈاک کے انبار میں سے کچھ قابل اشاعت محسوس ہوا ہے ملاحظہ فرمائیں۔ بجلی کی پیداواراور ڈیم ضروری ہیں! لیکن بقیہ پاکستان کی قیمت پر نہیں! پہلے تھوڑی سی تمہید ملاحظہ ہو… کالا باغ ڈیم کے خلاف بات کرنے والوں کو لوگ ہندوستانی ایجنٹ جیسے القابات سے نوازتے ہیں، کوئی بھی ناک کی سیدھ سے آگے دیکھنے کا روادار نہیں۔ ان سب کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے۔ حقیقت میں یہی لوگ ملک کے دشمن ہیں۔ میں کالا باغ ڈیم کے متبادل دو سنجیدہ اور اچھوتی تجاویز پیش کرتا ہوں۔
بجلی کی پیداوار صرف آلٹرنیٹرز کو پانی سے چلاکر، وہ بھی چند ہفتوں’ یا چند مہینوں میں لگا کر۔ چار ڈایامیٹر کی روٹری کے ساتھ (16,666)، اور تین ڈایامیٹر کی روٹری کے ساتھ (27,112) جنریٹر لگا کر پانی سے چلائے جاسکتے ہیں، اکیلے اکیلے (Single) بھی لگائے جاسکتے ہیں ، اور جوڑے (Pairs) کی شکل میں بھی، تین کے سیٹ اور چارچار کے سیٹ میں بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ لگانا بھی آسان یعنی سالوں کا انتظار نہیں، بلکہ ہفتوں یا چند مہینوں میں اور اخراجات بھی کم اور بجلی کی پیداوار سستی اور مسلسل۔ بہت ہی موزوں جگہ ایک لاکھ میٹر کی (Location) موجود ہے۔ صرف پہل چاہئے اور بہ نسبت ہوا سے چلنے والے جنریٹر کے یہ زیادہ کارآمد یعنی کہ ہوا چلتی ہو تو بجلی پیدا ہوگی، ہوا کا چلنا بند ہوا، تو بجلی کی پیدا وار بھی بند۔ نمبر2۔ ڈیم:۔ دریاؤں کو چھوڑ کر بیابانوں اور صحراؤں میں بھی ڈیم بنائے جاسکتے ہیں، چاہے مقصد بجلی حاصل کرنا ہو یا زرعی مقاصد کے لئے پانی جمع کرنے کا ہو، پاکستان میں صحرا اور بیابان تو ہیں ہی، کسی بھی جگہ کسی بھی سائز کے ڈیم بنائے جا سکتے ہیں، یعنی ایک، دو، تین، چار یا پانچ کلو میٹر لمبائی کے اور اونچائی ضرورت کے مطابق پانی ہی پانی اور بجلی ہی بجلی۔ (ختم شد)