پھر بھاگ گیا!
بھارت ایک بار پھر مذاکرات سے بھاگ گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 14 ستمبر کے مکتوب بنام مودی مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا تھا جس کے بارے بھارتی قیادت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ پہلے ہاں اور پھر ناں، ہاں ہاں کر کے ناں ناں کرنے کی تکرار 70 سال سے دیکھتے اور سنتے آ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ہم پر عسکریت پسندی کا الزام بھی کوئی نئی بات نہیں۔ حالانکہ مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوج کی بربریت سے کون سا ملک واقف نہیں۔ مودی حکومت شدت پسند سیاسی عناصر اور میڈیا کے زیر اثر ہے۔ مودی نے اپنا الیکشن بھی پاکستان کیخلاف مہم چلا کر جیتا تھا اگر نیو یارک میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو بھی جاتی تب بھی کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔ چند منٹ کی ملاقات شیک ہینڈ اور فوٹو سیشن سے زیادہ نہ ہوتی۔ کبھی سمجھوتہ ایکسپریس، کبھی ممبئی حملوں اور کبھی کارگل کو بہانہ بنایا گیا۔ مشرف واجپائی ملاقات بھی بے اثر رہی تھی۔ 1999ء میں نواز شریف واجپائی ملاقات کے بعد اعلان لاہور بھی کاغذی کارروائی تھی۔ آبی تنازعات اور کشمیر اہم ترین تنازعات ہیں۔ بھارت نے 70 سال سے بات چیت کیلئے ماحول کوسازگار نہیں پایا۔ نیویارک میں سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی ملاقات کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے ملاقات کا مقصد مذاکرات کی بحالی ہے نہ پاکستان سے متعلق ہماری پالیسی تبدیل ہوئی ہے بالالفاظ دیگر پاکستان دشمن پالیسی جوں کی توں ہے۔ نواز شریف، مریم ، صفدر کی رہائی نے ان گنت سوالات کا امتحانی پرچہ حکومت اور عدلیہ کی میز پر رکھ دیا ہے۔
کوئی بھی حکومتی قدم اچھے یا برے اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ فنانس ایکٹ 2018ء میں ترمیم کی صورت میں ضمنی یا منی بجٹ بھی اثر آفریں ہے۔ بجٹ خسارہ 1800 ارب سے بڑھ کر 2700ء ارب ہونے کا خدشہ تھا۔ اسدعمر نے 180 ارب روپے کے اضافی محاصل کیلئے سگریٹ موبائل فون کاسمیٹک کا سامان، پنیر اور بڑی گاڑیاں مہنگی کر دی ہیں۔312 درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے جبکہ 295 درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5سے 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے برآمدی صنعت کو ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے گیس کی قیمتوں میں اضافے پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ کھاد، بجلی اور تندور کی گیس مہنگی ہونے سے آٹا، دالیں، چینی اور کپڑے سمیت ہر چیز مہنگی ہو جائیگی۔ بجلی کی طرح گیس بھی چوری کی جاتی ہے حکومت یہ چوری روک دے تو سردیوں میں لوڈ مینجمنٹ نہیں کرنا پڑے گی۔ گورنروں اور وزیروں سے مفت رہائش، سفر اور تفریح کی سہولتیں ختم کرنے سے اچھی خاصی بچت ہوگی۔ عمران خان نے معاشی بحالی ترجیح کو دہرایا ہے کہ 100روز میں تبدیلی نظر آئیگی۔
سوئٹزر لینڈ میں پاکستانیوں کے بینک اکائونٹس تک رسائی مل گئی تو خزانے میں کچھ ضرور دکھائی دیگا۔ پاکستان اور سعودی عرب میں 10ارب ڈالرز کا اقتصادی پیکیج بھی ہماری خوش بختی ہے۔ امیروں کی سبسڈی ختم کرکے غریبوں کو دینے کا اعلان ہوا ہے گردشی قرضوں کی مد میں آئی پی پیز کو 50ارب کی ادائیگی کا فیصلہ ہوا ہے۔ حکومت نے فیصلہ آئی پی پیز کی طرف سے بجلی کی پیداوار بند کرنے کی دھمکی پر کیا۔ نوازشریف کی سزا کی معطلی زیادہ تر برقرار نہیں رہتی تب بھی معاشی زاویے بدلتے دکھائی دینگے۔ حقائق و شواہد کو جھٹلانا مشکل ہے آنے والے مہینوں میں سیاسی تبدیلی نظر آ سکتی ہیں لیکن فوری طور پر نہیں بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک ہزار ارب کی جائیدادیں بھی خزانہ بھر سکتی ہیں ۔ملکی سلامتی اور بقا کے دو اہم ترین میگا پراجیکٹس کی نگرانی دو اہم ترین شخصیات کر رہی ہیں۔ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے نگران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار جبکہ سی پیک پر آرمی چیف کی آنکھیں جمی ہیں ۔ دو ممالک ہمارے لئے اہم ترین ہیں سعودی عرب اور چین، وزیراعظم عمران خان نے بیرونی دوروں کا آغاز سعودی عرب سے کیا ہے ادھر آرمی چیف چینی قیادت سے مل کر آئے ہیں ہمسایوں سے بات چیت کا آغاز ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیرون ملک فضائی سفر کا آغاز افغانستان سے کیا ہے۔ ہمسائے کی سنی اور کچھ اپنی سنائی ہے۔ ڈیم بھی بن کر رہیں گے اور سی پیک بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف الرحمٰن علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب انہوں نے کرپشن، نئے ڈیم ، پانی و بجلی کے مسائل اور شجرکاری کو موضوع بنایا۔ پارلیمانی سیٹ اپ میں صدر مملکت بالعموم حکومت وقت کے ہم نوا ہوتے ہیں ۔وہ حکومتی ساز کے ساتھ ہی اپنی آواز ملاتے ہیں وہ کوئی نقاد یا تھنک ٹینک کا کردار ادا نہیں کرتے۔ وزیراعظم عمران خان کا ایک جرأت مندانہ اعلان پاکستان میں پیدا ہونیوالے افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونیوالے افغانی بچوں اور 40سال سے مقیم بنگالیوں کو شناختی کارڈ کے اجراء کیلئے وزارت داخلہ سے کہا جائے گا کہ انسانی ہمدردی اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان افراد کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں انکے پاس نہ نوکری ہے نہ پاکستانی شہریت وزیراعظم نے افغان اور بنگالی مہاجرین کو شہریت دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔ تجاویز مانگی ہیں۔ اختر مینگل نے وزیراعظم کے بیان پر یہ کہہ کر واک آئوٹ کیا کہ حکومت سے معاہدے میں ایک نکتہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا بھی تھا۔ ادھر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے بنگالی مہاجرین کو شہریت دینے کی حمایت بلکہ مطالبہ کیا ہے۔