افغانستان: امید افزاء خبروں کا تسلسل
جوزف ڈنفورڈ امریکی افواج کے مشترکہ کمانڈر ہیں۔ ستمبر کے شروع میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے سے واپسی پر ایک رپورٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ ’پاکستان افغان حل کا حصہ ہے‘ اس سے مراد پاکستان کی اس مسئلے کے حل میں کلیدی حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس سے مطلوبہ کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ اس رپورٹ میں ان کی ایک گفتگو کا حوالہ موجود ہے: ‘‘جب ہم نے جنرل باجوہ سے ملٹری کی سطح پر بات کی تو ہم نے وزیراعظم کو بہت احتیاط سے سنا اور سیکریٹری پومپیو کو بھی بہت احتیاط سے سنا۔ وزیراعظم اور سیکرٹری پومپیو کے درمیان مقاصد کی مکمل ہم آہنگی تھی۔ لہذا میں نے اور جنرل باجوہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم وزیراعظم اور سیکرٹری کے خیالات اور صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی پالیسی کو ملٹری سطح پر تعلقات کو فروغ دینے کیلئے استعمال کرینگے’’۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والوں اجلاسوں کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔ ‘‘اقدامات باتوں سے بلند آواز گفتگو کرتے ہیں اور پاکستانی قیادت نے اس بات اس اتفاق کیا ہے کہ وہ امریکہ سے تعلقات کی ازسر نو تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم (پاکستان سے) کیا چاہتے ہیں: طالبان کو مذاکرات کی میز پر افغان حکومت سے مذاکرات کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیںاور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان طالبان کی امن کے عمل میں شرکت کیلئے ایک نادر کردار ادا کرسکتا ہے۔’’پاک نیوی کے سربراہ ظفر محمود عباسی جو امریکہ میں نیول امور پر ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات بہتر ہو رہے ہیںاور اب ان کا انحصار کسی قسم کی مالی امداد پر نہیں ہے۔ ‘‘ امریکہ سے ہمارا تعلق ایک نیا موڑ مڑ گیا ہے اور اب یہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے یہ اب کم ترین سطح پر نہیں ہے۔ امریکہ سے امداد طلب کرنا ہمارا اولین مقصد نہیں ہے۔ ہم امریکہ سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، چاہے اس میں دفاعی امداد ہو یا نہ ہو۔ ہم امریکی مدد کے بغیر گزارہ کرسکتے ہیں۔دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی ایک اور رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے موثر اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف دہشت گردی کی وارداتوں میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے بلکہ علاقے میں القاعدہ کے اثرات میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ رپورٹ میں خصوصاً قبائلی علاقوں میں کی جانیوالی کارروائیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے مثبت اثرات کا جائزہ لے کر یہ کہا گیا ہے کہ اس سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کا کردار خطے میں امن کی بحالی کیلئے اہم ہے اور اس سلسلے میں اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اخبار واشنگٹن ٹائمز میں ایک اہم تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں یہ خبر بھی شامل ہے کہ امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ پاکستان کو دی جانیوالی جو رقم روک لی گئی تھی اس کو دوبارہ جاری کردیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق انتخابات میں عمران خان کی کامیابی نے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے ایک نیا دروازہ کھولا ہے جس کو استعمال کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کو دی جانیوالی رقوم کو روکنے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک مشیر کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو ان کی حیثیت کا پتہ دینا ضروری تھا، جبکہ ایک سابق امریکی سفیر کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کو روکنے کا فیصلہ بہت خوفناک تھا۔
پاکستان کے سفارت خانہ میں منعقدہ یوم دفاع سے متعلق ایک تقریب میں اسٹنٹ سیکرٹری دفاع جناب شیفر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کا ہم کھل کر اعتراف کرتے ہیں، لیکن ہمارے تعلقات میں اعتماد کی کمی رہی ہے جس کو دور کرنا ضروری ہے یہ وہ تناظر ہے جس میں ایک طرف افغان مسئلے کی نئی صورت گری ہو رہی ہے تو دوسری جانب پاک امریکہ تعلقات بھی کسی قدر سرد مہری سے نکل کر معمول کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ درحقیقت حیرت اس بات کی ہے کہ یہ تعلقات اس قدر خراب کیوںکر ہوگئے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ انکی درستگی دنیا اور خطے میں امن کیلئے ضروری ہے۔ اگر کچھ طاقتوں کو یہ گمان ہے یا انکی یہ خواہش ہے کہ پاکستان کو شمالی کوریا بنادیا جائے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ نیول چیف نے صحافیوں سے ہونیوالی گفتگو میں اس خیال کی سختی سے تردید کی ہے کہ پاکستان کسی پیمانے سے بھی شمالی کوریا سے مطابقت رکھتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی برادری کا نہایت متحرک اور باصلاحیت ملک ہے جس نے دنیا میں امن کے فروغ کیلئے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ابھی چند روز قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی میں اس کو بورڈ آف گورنرز کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ اور کئی ایسے مناصب پر اسکے شہری اور ماہرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لہذا پاکستان کے متعلق یہ گمان کہ اسے دنیا میں یک و تنہا کردیا جائے گا صرف اس کا برا چاہنے والوں کا خواب تو ہوسکتا ہے، حقیقت سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے اپنا پہلا سرکاری دورہ افغانستان کا کیا ہے جہاں انکی ملاقات صدر اشرف غنی سے بھی ہوئی جبکہ اپنے ہم منصب سے انکی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ دونوں جانب سے اعتماد کی فضا کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ افغانستان میں امن کی بحالی خطے میں خوشحالی کیلئے ناگزیر ہے اور اس کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رھے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنا پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں ایک نہایت ہی دورس اتفاق سامنے آرہا ہے جو سعودی عرب کی سیپیک میں شمولیت سے متعلق ہے۔ خبروں کے مطابق سعودی عرب اب اس منصوبے میں تیسرا باضابط فریق ہوگا۔ مزید براں سعودی سرمایہ کاری کا پہلا منصوبہ گوادر میں ایک آئل سٹی کا قیام ہوگا جو اس بندرگاہ کو تیل کی ترسیل کا ایک اہم اسٹیشن بنا دے گا۔ اسکی تفصیلات وزارتی سطح پر اکتوبر میں طے کی جائیں گی۔ امریکہ اور افغانستان کو پاکستان سے یہ توقع ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کریگا۔ پاکستان نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے اور وہ یہ کوششیں بھی کر رہا ہے لیکن یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہوگی اگر یہ سمجھا جائے کہ طالبان جو اس وقت پہ در پہ کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہے ہیں وہ اپنی سربلندی کسی مذاکرات کی میز پر قربان کردیں گے۔ جنگی میدان میں اگر مذاکرات ہوتے ہیںتو وہ فریقین کی جنگی کامیابی اور ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو کچھ میدان جنگ میں کھو دیا جائے وہ کسی شیریں گفتگو اور شائستہ زبان سے سے مذاکرات کی میز پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا طالبان سے مذاکرات میں یہ امر اولیں اہمیت کا حامل ہوگا کہ امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کا شیڈول کیا ہوگا۔