پیر ‘13؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 24؍ ستمبر 2018ء
وزیر خارجہ کی بغیر پروٹوکول ائیر پورٹ آمد۔ لائن میں لگ کر بورڈنگ کرائی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نیویارک جاتے ہوئے جس طرح عوامی انداز میں سفر کیا وہ ہماری پروٹوکول کی ماری سرکاری مشینری اور حکمرانوں کے لئے سبق ہے۔ وزیرخارجہ نے ائیر پورٹ پر عام مسافروں کی طرح لائن میں لگ کر بورڈنگ کارڈ لیا۔ اس دوران ائیر پورٹ پر موجود مسافر بھی انہیں رشک سے دیکھتے رہے ا ور پھر ہمت کر کے کئی افراد اور فیملیوں نے ان کے ساتھ سلفیاں بنوائیں۔ وزیر خارجہ نے نہایت مسرت کے ساتھ سلفیاں لینے والوں کو ہائے ہیلو بھی کیا۔ اس طرح خادم اور مخدوم کا فرق مٹ کر رہ گیا۔ یہ طریقہ ہے عوام کے دلوں پر راج کرنے کا۔ لوگ بھولے بھالے ہیں سیدھے سادے ہیں۔ وہ صرف حکمرانوں کی محبت ا ور توجہ چاہتے ہیں۔ جب وہ کسی بڑے آدمی کو اپنی صف میں دیکھتے ہیں تو ان کی محبت اور بڑھ جاتی ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز امریکہ جاتے ہوئے یہی محبت سمیٹی اور ایک اچھا تاثر د یا۔ ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ اب خاص و عام کا فرق مٹ جانا چاہئے تاکہ خواص کو بھی پتہ چلے کہ عام لوگ کیا چاہتے ہیں۔ جب وہ براہ راست عوام کی مشکلات کا مشاہدہ کریں گے تو لامحالہ ان کے دل میں ان مسائل کے حل کی خواہش پیدا ہو گی اور وہ کچھ نہ کچھ کر گزریں گے۔ شاہ محمود قریشی کی طرح باقی وزرا بھی نام نہاد پروٹوکول سے نجات پا کر عوام کے دلوں میں اس طرح جگہ بنا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ٹنڈو غلام علی میں اعلیٰ گدھوں کی منڈی سج گئی
سندھ کے چھوٹے سے قصبے ٹنڈو غلام علی میں اس موقع پر خوب رونق لگتی ہے۔ حسب سابق بیشمار دکانیں کھل گئیں۔ بازار سج گئے۔ بس اب کسر رہ گئی ہے وہاں سرکس، موت کے کنوئیں اورتھیٹرز کی اگر یہ لوگ بھی چند روز کے اس گدھا میلہ میں رنگ جمانے آ جائیں تو اس میلے کی رونق میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ویسے تو…؎
ہر خر کی قسمت میں کہاں یہ ناز و نخرا
کچھ خر تو بکتے ہیں کمہاروں کے لئے ہی
اس میلے میں جو ہر سال سجتا ہے ملک بھر سے اعلیٰ نسل کے خاندانی گدھے جنہیں نہایت پیار و محبت سے پالا ہوتا ہے، جدید تراش خراش سے تیار کر کے یوں لایا جاتا ہے جیسے دولہا اور دلہن آج کل بیوٹی پارلروں سے تیار ہو کر شادی ہال میں آتے ہیں۔ یہ حسین و جمیل گدھے عام گدھے نہیں ہوتے۔ انہیں نہایت پیار و محبت سے پالا جاتا ہے۔ یہ اعلیٰ خوراک کھاتے ہیں۔ اس سال مندے کے باوجود یہاں 10 لاکھ سے لے کر 5 لاکھ تک کے گدھے دستیاب تھے۔ اب معلوم نہیں خریدنے والے بعد ازاں ان سے کیا کام لیتے ہیں۔ انہیں اتنی اچھی قیمت میں فروخت ہوتا دیکھ کرغریبوں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ اگر انہیں دس لاکھ یکمشت ملے تو وہ ہنسی خوشی گدھا بن کر ساری ز ندگی اپنے مالک کی خدمت کو تیار ملیں گے۔ اس میلے میں صرف گدھے فروخت نہیں ہوتے ان کی کیٹ واک بھی ہوتی ہے۔ ان کو آج کل کے نوجوانوں کی طرح بہترین سٹائل اپنانے پر انعام بھی ملتا ہے۔ یوں سمجھ لیں اس میلے میں گدھوں کی خرمستیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں اور وہ شائقین اور خریداروں سے خوب داد وصول کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ہارنے والے امیدواروں کو نوازنے کی تیاریاں
خبر تو خبر ہوتی ہے۔ لوگ خاص خبروں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ کل تک جو کام سابقہ حکومت کر رہی تھی اور اس پر پی ٹی آئی والے خوب گرج برس رہے تھے۔ آج وہی کام یعنی اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کو پرکشش آسامیوں پر تعینات کر کے نوازنے والی پالیسی موجودہ حکومت بھی برقرار رکھنے پر بضد ہے۔ خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے واسا، ایل ڈی اے ا ور پی ایچ اے کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے ان امیدواروںکو جو الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے کھپانے کا فیصلہ کیا ہے، کچھ تو نام بھی فائنل کر لئے ہیں۔
صرف یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ ا یسے ہی دیگر امیدواروں کو وائس چیئرمین، ایڈمنسٹریٹر اور کوارڈینیٹر لگانے کی بھی تیاریاں مکمل ہیں۔ اس طرح بہت سے لوگوں کی تو سمجھ لیں لاٹری نکل آئی ہے۔ اب ہار ہو جیت دونوں صورتوں میں ان کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہو گا۔ اب میرٹ جائے چولہے میں تبدیلی جائے گھاس کاٹنے یہاں وہی کچھ ہوتا ہے جو ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس لئے کسی سے شکوہ شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سب اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ بجا کر اسی راستے پر چل رہے ہیں جس پر دوسرے چلیں تو غلط خود چلیں تو درست کا بورڈ لگا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭
سسٹم میں پانی موجود ہی نہیں تو ڈیم بنانے کا کیا فائدہ: وزیراعلیٰ سندھ
مراد علی شاہ صاحب کے منہ سے ایسی باتیں سُن کر صرف صبر کیا جا سکتا ہے۔ جو ہم پاکستانیوں کے پاس ویسے ہی وافر مقدار میں ہے۔ آج تک ہم نئے ڈیم بنانے کے مسئلہ پر صرف صبر ہی کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کوئی ذرا مراد شاہ صاحب سے پوچھے تو سہی کہ حضرت جب پانی وافر تھا تب بھی کالا باغ ڈیم کے نام سے بہت لوگوں کو غش آنے لگتا تھا جو اب بھی آتا ہے۔ سندھ اور جہلم دو ایسے دریا ہیں جن پر پاکستان کا حق بھارت نے تسلیم کیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم کالا باغ ڈیم سمیت بے شمار ڈیم بناتے تاکہ پانی سارا سال جمع رہتا اور جہاں کمی ہوتی وہاں کے سسٹم میں ڈالا جاتا۔ جہلم پر منگلا بن چکا۔ اب کالا باغ ڈیم کی باری تھی جو دریائے سندھ پر بنانا تھا۔ دریائے سندھ میں صرف موسم سرما میں پانی کم بہتا ہے۔ ا گر ہم موسم گرما اور مون سون میں کالاباغ میں پانی کا ذخیرہ کر لیں تو سارا سال سندھ سمیت تمام صوبے ہرے بھرے رہیں گے۔ نہریں رواں رہیں گی سارا سندھ سرسبز ہو گا مگر برا ہو اس نفرت کا کہ صرف سیاسی تعصب کی وجہ سے یہ ڈیم بنانے نہیں دیا جا رہا۔
شاہ صاحب دریائے سندھ میں پانی بہت ہے ڈیم بنانے سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ سندھ میں خشک سالی پنجے گاڑ ررہی ہے اور آپ ملہار کی جگہ دیپک راگ الاپ رہے ہیں اس سے تو اور آگ لگے گی۔ پورا سندھ تھر بن جائے گا۔ اس لئے سندھ کو بنجر ہونے سے بچانے کے لئے آگے بڑھیں اور دل پر پتھر رکھ کم از کم سچ ہی بولیں …
٭٭٭٭٭