دہشت گردی پاکستان، افغانستان او ر ایران کا مشترکہ مسئلہ
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق گذشتہ روز شمالی وزیرستان کے علاقوں غرالائی اور سپراکنداں گلا میں سکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع پر آپریشن کیا۔ جہاں سرحد پار سے آئے دہشتگرد چھپے تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک افسر سمیت 7 اہلکار شہید اور 9 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ ایک اور کارروائی میں سکیورٹی فورسز نے تحصیل مہمند کے علاقے میں بھی کارروائی کر کے دو خودکش بمبار دہشتگرد ہلاک کر دئیے۔
ان کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد پھر اپنے پرانے ٹھکانوں میں منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ امر اطمینان بخش ہے کہ سکیورٹی فورسز دہشتگردوں کے پرانے مراکز پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ افعانستان میں، امریکہ، نیٹو اور افغان فوج کو دہشتگردی کے خلاف وہ کامیابی نہیں ہوئی جو پاک فوج نے تاریخ میں دہشتگردی کی سب سے بڑی اور خوفناک جنگ بے جگری سے لڑ کر حاصل کی۔ کابل کے حکمران بھی اگر پاکستان کے ساتھ تعاون کرتے تو اب تک افغانستان دہشتگردوں سے پاک ہو چکا ہوتا، جہاں امریکہ، نیٹو اور اب بھارت کی موجودگی کے باوجود دہشتگردوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ جب تک افغانستان دہشتگردی کے خلاف زمینی حقائق کے مطابق پالیسی اختیار نہیں کرتا خود تو بھگتے گا پاکستان کوبھی خواہ مخواہ نقصان پہنچتا رہے گا۔دراصل دہشت گرد افغانستان کے بعد پاکستان کے امن کو بھی جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا، تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ دو روز پہلے ایران کے شہر اہواز میں عراق کے ساتھ جنگ کو 38 سال مکمل ہونے کے حوالے سے فوجی پریڈ جاری تھی کہ دہشتگردوں کے جتھے نے حملہ کر دیا۔ جھڑپ میں 29 پاسداران انقلاب شہید، 57 افراد زخمی اور چاروں حملہ آور جن کا تعلق داعش سے بتایا جاتا ہے، ہلاک ہو گئے۔ ایران اب تک دہشت گرد ی سے محفوظ تھا لیکن اب وہ بھی لپیٹ میں آتا نظر رہا ہے۔ یہ صورتحال سنگین رخ اختیار کر رہی ہے اور اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ایران تینوں ملک مل کر دہشتگردی کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پر متفق اور متحد ہو جائیں۔ ایک دوسرے کے ملکوں میں دہشتگردوں کو پناہ یا ٹھکانے مہیا نہ کریں، جیسا کہ افغانستان نے سرحد کے ساتھ ملنے والے صوبوں میں پاکستان سے فرار ہو کر آنے والے طالبان اور دیگر دہشتگردوں کو فراہم کر رکھے ہیں یا جیسا کہ بھارتی را کا ایجنٹ کل بھوشن یادیو ایران کے شہر چاہ بہار کو مستقر بنا کر بلوچستان میں دہشت گردی ا ور تخریب کاری کا نیٹ ورک چلاتا رہا اور ایرانی حکام کو خبر ہی نہ ہوئی۔ بے گناہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے تینوں ملکوں کو بیدار رہ کر دہشتگردوں کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے۔ خطے میں دہشتگردوں کی نقل و حرکت اور ٹھکانوں کے بارے میں معلومات شیئر کرنے میں کوتاہی یا تساہل امن و استحکام کے لئے تباہ کن ہوگا۔