یہ کوئی نئی بات نہیں بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو 1948ءمیں کشمیر پر ہونے والی پاک بھارت جنگ کے بعد کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ پاک بھارت جنگ میں سیز فائر ہونے کے بعد نہرو نے 12 فروری 1951ءکو بھارتی پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا:
We have taken the issue to the United Nations and given our word of honour for a peaceful solution As a great nation, we can not go back on it we have left the question for final solution to the people of Kashmir and we are detremined to abide by their decision.
”ہم کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے ہیں۔ ہم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا پرامن حل تلاش کریں گے۔ ہم اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ کشمیر کے مسئلہ کے حتمی حل کو ہم نے کشمیری عوام کی منشا پر چھوڑ دیا ہے اور ہم نے یہ عزم کیا ہوا ہے کہ ہم کشمیریوں کے فیصلے کی پابندی کریں گے“
بھارتی پارلیمنٹ کے علاوہ پنڈت جی نے اس سے قبل 16 اگست 1950ءکو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک ٹیلی گرام میں لکھا تھا:
"The most feasable method of ascertaining the wishes of people has by fair and impartail plebiscite"
بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی طرف سے کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود اختیاری دینے کے وعدوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ پنڈت نے سرینگر کے لال چوک میں بھی تقریر کرتے ہوئے کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا تھا لیکن آج 70 برس گزر چکے ہیں بھارت نے کشمیریوں سے یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کے کئی راونڈز ہوئے۔ ساٹھ کے عشرہ میں پاکستان اور بھارت کے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کے کئی ادوار ہوئے۔ جب 1962ءمیں نیفا کے محاذ پر چینی فوج نے بھارتی فوج درگت بنائی تو جواہر لعل نہرو اس شکست کے صدمہ کو دل پر لے بیٹھے اور دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ امریکہ اور برطانیہ نے چینی فوج کے ہاتھوں بھارت کی پسپائی کو دیکھا تو انہوںنے فوری طو پر پاکستان کو طفل تسلیاں دینا شروع کیں کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعہ حل کرایا جائے گا۔ امریکہ اور برطانیہ کو خطرہ تھا کہ چین کی مدد سے پاکستان مقبوضہ کشمیر میں فوج داخل کر کے اسے آزاد کرانے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ اور برطانیہ نے 1963ءمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ان کے اس وقت کے بھارتی ہم منصب سردار سورن سنگھ سے کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات ہوئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ڈکلاسیفائی ہونے والی دستاویزات کے مطابق بھٹو سورن سنگھ کے درمیان 1963ءمیں ہونے والے مذاکرات میں بھارت نے تسلیم کیا کہ ”کشمیر ایک تنازعہ ہے اور اسے حل کرنے کے لئے کشمیر کی نئی حد بندی ضروری ہے“
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت کے کئی ادوار ہوئے ‘ لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 1984ءمیں بھارت نے سیاچن پر قبضہ کر لیا جس سے پاک بھارت کشیدگی بڑھی۔ 1989ءمیں بینظیر اور راجیو گاندھی کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات ہوئے جس میں بھارت نے سیاچن سے فوجیں واپس بلانے کا عندیہ دیا لیکن حسب معمول بھارت اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے ہٹ گیا۔ سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کےلئے دونوں ملکوں میں انڈسٹینڈنگ کئی بار ہوئی لیکن بھارت نے سیاچن پر قبضہ جاری رکھا۔
جنرل مشرف کے دور میں واجپائی اسلام آباد آئے‘ اسلام آباد ڈیکلریشن پر دستخط ہوئے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا دعویٰ ہے کہ مشرف دور میں پاکستان اور بھارت کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جنرل مشرف نے کشمیر کے مسئلہ کا ”آ¶ٹ آف دی باکس“ حل بھی تجویز کیا لیکن بھارت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لئے پس پردہ سفارت کاری اور دوسرے ذرائع سے مذاکرات کی کوششیں ہوئیں لیکن بھارت ہر مرتبہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر مذاکرات سے فرار ہوتا رہا۔
تازہ ترین مثال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں خود بھارت نے نیویارک میں پاک بھارت وزرائے خارجہ مذاکرات تجویز کئے اور پھر مکر گیا۔ پرانے الزامات دوہرا کر بھارت مذاکرات سے جان چھڑا رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات پر نظر رکھنے والوں کا تجزیہ یہ ہے کہ بھارت مودی حکومت کے ہوتے ہوئے بات چیت کے لئے تیار نہیں کیونکہ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔ وہ اگلے سال کے انتخابات میں کامیابی پاکستان مخالف نعروں کی بنیاد پر جیتنا چاہتی ہے۔ وہ پاکستان کیخلاف دہشت گردی کا کارڈ کھیلتی رہے گی‘ اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہو گی۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024