اندھا قانون اور کرپشن راج
حاجی صاحب میرے بزرگ دوست ہیں کچھ جذباتی ہیں لیکن سچ بولتے ہیں ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں سچے عاشق رسول ﷺ اور محب الوطن پاکستانی ہیں۔ میری کبھی کبھار ان سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ ملاقات میری زندگی کا قیمتی سرمایہ بن جاتی ہے۔ میں صرف انکو سنتا ہوں اور وہ ایک سانس میں قوم کے سینکڑوں مسائل گنواکر رکھ دیتے ہیںملاقات کے بعد ہزاروں ایسے سوالات میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہوتا کیونکہ آسمان سے ٹوٹے تارے اور بنیاد سے اکھڑی قومیں بے معانی اور لاوارث کہلاتی ہیںاور جب انسان انسانی المیوں کے بارے سوچے تو ناجانے کتنے مسائل آنکھوں کے سامنے ستاروں کی طرح ڈگمگانے لگتے ہیں۔ کیونکہ میں اس دیس کا باسی ہوں جہاں قانون اندھا اور کرپشن کا راج ہے حاجی صاحب کی چند باتیں میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ 1) پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ڈاکٹروں اور میڈیسن کمپنیوں کی خفیہ ڈیل چلتی ہے۔ کیونکہ میڈیسن کمپنیاں ڈاکٹر وں کو امریکہ، یورپ چین کے وزٹ شاپنگ یا گاڑیاں مکان اور نقدی جیسے بیشمار پیکیج دے کر ان سے اپنی میڈیسن لکھواتی ہیں یہ میڈیسن کمپنیاں 20سے 25فیصد ڈاکٹروں کو اور 5سے 10فیصد رقم محکمہ ہیلتھ کے کرپٹ آفیسران میں تقسیم کرتی ہیں۔ اب ہمارے اکثر ڈاکٹر حضرات اپنے نسخے میں مریض کیلئے وہ دوائی ضرور تجویز کرتے ہیں جن کمپنی کی ان سے خفیہ ڈیل ہو اور وہ دوائی ان کی اپنی فارمیسی پر رکھی ہو اور ہمارے ہاں بعض ڈاکٹر ایسے بھی ہیں جو گورنمنٹ سے لاکھوں روپے ماہانہ پیکیج لینے کے باوجود انکی ساری توجہ اپنی پرائیوٹ کلینک پر ہوتی ہے۔ اب ہمارے ہاں 55فیصد ایسے مریض جو اُدھار لیکر یا اپنی قیمتی چیز بیچ کر ڈاکٹروں کے پاس علاج کیلئے آتے ہیں۔ اب یہاں ایک تو ہزاروں روپے چیک اپ فیس دوسرااتنے مہنگے نسخے اور پھر میڈیسن کا اتنا مہنگا ہوجانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ یقین کیجئے میں نے سینکڑوں مریض ایسے بھی دیکھے ہیں جن کے پاس دوائی خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں اور وہ ہسپتالوں اور پرائیوٹ کلینکوں کے سامنے رو رو کر گھر واپس چلے جاتے ہیں یہ ہمارے ڈاکٹروں ، میڈیسن کمپنیوں اور حکومت کا حال ہے۔ (2) پاکستان میں جگہ جگہ جعلی پیر، بھوپے، عامل پروفیسر، نوری یا کالا جادو کرنے والے مرد اور عورتیں جنہوں نے ہزاروں روپے اپنی ایڈورٹائز منٹ پر لگا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور ہمارے سیدھے سادے وہ لوگ جو گھریلو حالات کاروبار یا محبتوں میں ناکام ہوکر ان جعلی پیروں کا رخ کرتے ہیں اور یہ جعلی پیر پروفیسر اپنے بیہودہ اور ناپاک حربوں سے ان لوگوں کو لوٹتے ہیں یہ عامل بھوپے پریشان لوگوں کے درمیان مزید غلط فہمیاں پیدا کرکے انکے مسئلے بڑھا دیتے ہیں جبکہ ہر مسئلے کا حل اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابیاں عطا کرنے کیلئے دن میں پانچ مرتبہ اپنی طرف بلاتا ہے۔ لیکن ہم وہاں جانے کی بجائے ان غلط جگہوں کا رخ کرتے ہیں جن کی اپنی زندگی مسائل سے بھری پڑی ہے یقین کیجئے یہ عامل پروفیسر ، جعلی پیر مائوں ، بہنوں کی عصمتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ یہ مجبور لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر ان کے جذبوں سے کھیلتے ہیں انکی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں یہ لوگوں کے گھر برباد کرتے ہیں یہ لوگ مسلمانوں کو اسلام سے دور کررہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جاتی اور یہ لوگ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ (3) ہمارے ہاں 60فیصد ایسے لوگوں کو لائسنس ایشو ہورہے ہیں جو ڈرائیونگ نہیں جانتے اور 22فیصد ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا اور 20سے 25فیصد ایسی گاڑیاں چل رہی ہیں جنکے پاس مکمل کاغذات نہیں ہوتے اور ہماری مسافر کوچیں ، ٹرک جو ملک کے اندر سینکڑوں کلومیٹر سفر کرتے ہیں ان میں سے کافی کے اندر خفیہ خانے بنے ہوتے ہیں جہاں ڈرائیور اور مالکان منشیات ، اسلحہ، ایرانی تیل وغیرہ سپلائی کرکے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔یہ ڈرائیور حضرات ہر پولیس چوکی پر دو چار سو روپے دے کر اپنے مقررہ مقام پر یہ غیر قانونی تمام اشیاء باآسانی پہنچاتے ہیں جس کا ازالہ قوم بھگت رہی ہے۔ جبکہ قانونی ادارے خاموش ہیں ۔ (4) میں وکلاء کی قربانیوں کو تسلیم کرتا ہوں لیکن کچھ روز پہلے ایک وکیل صاحب کی بائیک دفتر سے چوری ہوگئی وکیل صاحب اور ان کی یونین نے روڈ بلاک کیا ہڑتالیں کیں جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لوگوں کا وقت ضائع ہوا اور مجھے کل ایک صاحب بتارہے تھے کہ ایک سٹینو نے کسی سے تین چار سو روپے رشوت لی اور اس صاحب نے جج صاحب کو سٹینو کی کمپلین کی ۔ جج صاحب نے سٹینو کو برا بھلا کہا اور پیسے واپس کرنے کا حکم دیا اور وہی سٹینو واپس آخر غصے سے کہنے لگے کہ ہم روزانہ جتنا بھی لوگوںسے پیسے لیتے ہیں ان میں سے جج صاحب کا راشن وغیرہ خریدتے ہیں۔ (5) کافی عرصے سے ہمارے ہاں ایک روایت چل رہی ہے ہم میلاد ، مجلس، شادی بیاہ یا قل خوانی کیلئے بلا جھجک روڈ بلاک کردیتے ہیں۔ کبھی آپ نے یہ سوچا کہ آپکے روڈ بلاک کرنے سے کتنے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ تو قارئین ہمارے ملک میں ان جیسے بیشمار مسائل نے قوم کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے لیکن ان کا ازالہ کوئی نہیں کرتا آخر کیوں ؟ہم اپنے روزگار کیلئے دوسروں کی خوشیوں اور زندگیوں سے کھیلتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یقین کیجئے ہمارے ہاں آج بھی ایسی سینکڑوں بستیاں اور درجنوں شہر موجود ہیں جہاں غربت ، مسافرت، مظلومیت اور بے مقصدیت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جنکی چھتیں کمزور اور دیواریں کچی ہیں اور جب ان بستیو ں اور گلیوں سے ہوا گزرتی ہے تو ناجانے کتنے ٹوٹے ہوئے خواب ساتھ اُڑ الے جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭