وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھانے اور افغانستان سے ملکر امن کی کوشش کرنے کا خوش کن اعلان
اپنی بقاءو سلامتی پر دشمن سے کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور خطے میں قیام امن کیلئے کردار ادا کرتا رہے گا‘ ہم خطے میں بدامنی نہیں چاہتے۔ گزشتہ روز لندن میں اپنی اقامت گاہ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مل کر خطے میں امن کیلئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ ہم خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے ہیں جسکے اچھے نتائج نکلیں گے۔ انکے بقول پاکستان اور افغانستان نے دہشت گردی کیخلاف ملکر لڑنے کا عہد کیا ہے‘ امن کیلئے پاکستان نے بے شمار قربانیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کیلئے ضروری ہے۔ ہم جنرل اسمبلی سمیت ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھائیں گے۔ کشمیر پر دونوں ملک جتنا جلد آگے بڑھیں بہتر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات کرے۔ کشمیر ہی پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کی بنیادی وجہ ہے‘ جتنی جلد مسئلہ کشمیر حل ہوگا‘ اتنی ہی تیزی سے دونوں ممالک ترقی کرینگے‘ ہمارا ایجنڈا پاکستان کی ترقی و خوشحالی ہے جبکہ دھرنوں نے پاکستان کی ترقی کا راستہ روکا۔ نئے چیف جسٹس نے بھی کہا کہ دھرنوں کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملکی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جا سکتے‘ انہیں اپنے مسائل اچھے طریقے سے حل کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل دونوں ملکوں‘ خطے اور دنیا کے امن کیلئے ناگزیر ہے۔ افغان صدر نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔
اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیویارک میں شروع ہو چکا ہے جس میں شرکت کیلئے دنیا بھر کی قیادتیں نیویارک میں اکٹھی ہو رہی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف بھی اس اجلاس میں شرکت کیلئے لندن آئے ہیں جہاں سے وہ آج نیویارک روانہ ہو جائینگے اور شیڈول کے مطابق 30 ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرینگے۔ اس اجلاس کے موقع پر بھارت کی جانب سے ہر سال پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اجلاس سے پہلے نیویارک میں بھارتی لابی بھی سرگرم ہو کر پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا مہم چلاتی ہے اور بھارتی سفارت کاروں سے لے کر سیاسی قائدین تک پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی کا ملبہ ڈالتے اور یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں بھارتی وزیراعظم کی اپنے ہم منصب وزیراعظم پاکستان سے رسمی یا غیررسمی ملاقات انکی مصروفیات کے شیڈول میں شامل نہیں ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ کشیدگی کی فضا اس لئے استوار کرتا ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا تذکرہ نہ آنے پائے اور اگر کہیں تذکرہ ہو جائے تو اس پر پاکستان کیخلاف بھارتی موقف مضبوط نظر آئے اور عالمی قیادتیں بھارتی موقف پر قائل ہو کر پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دباﺅ بڑھائیں اور اس طرح مسئلہ کشمیر گول ہو جائے۔ کانگرس آئی کی سابقہ بھارتی حکومت بھی اسی پالیسی پر گامزن رہی جس نے ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے ہی بند کر دیئے تھے اور اسی فضا میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیراعظم کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات سے گریز کیا جاتا رہا جبکہ بی جے پی کے موجودہ اقتدار کے دوران پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی بڑھانے میں خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے جن کی پاکستان دشمنی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ انہوں نے ڈھاکہ میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی فنڈنگ سے چلنے والی مکتی باہنی کی پاکستان توڑنے کی تحریک میں خود بھی حصہ لینے کا اعتراف کیا اور پاکستان کی ترقی کے راستے کھولنے والے اقتصادی راہداری منصوبے کیخلاف سرگرم عمل ہو گئے جبکہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھارتی فوجوں کی یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ مزید تیز کردیا گیا۔ اسی دوران امریکی صدر اوبامہ کے دورہ¿ بھارت کے موقع پر انکے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے کئے گئے اور بھارتی وزراءاور آرمی چیف نے پاکستان پر ایک مزید جنگ مسلط کرنے کے باقاعدہ بیانات دینا شروع کر دیئے جبکہ مودی سرکار نے افغان صدر اشرف غنی کو نئی دہلی مدعو کرکے انہیں نہ صرف گوادر پورٹ سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کے کرزئی دور والے ماحول کو برقرار رکھنے پر بھی قائل کرلیا چنانچہ جس افغان صدر کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان افغانستان مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے حوصلہ افزاءبیانات آرہے تھے جس سے افغانستان کی جانب سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آنے کی خوش گمانی پیدا ہوئی تھی وہی افغان صدر اشرف غنی اپنے پیشرو کرزئی کی طرح پاکستان کیخلاف شعلے اگلتے نظر آئے جبکہ افغانستان سے سرحد عبور کرکے پاکستان آنیوالے دہشت گردوں کی جنونی کارروائیوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا۔
بھارت تو شروع دن سے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے ایجنڈا پر گامزن ہے جس کیلئے اس نے تقسیم ہند کے ایجنڈا کے برعکس کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور پھر کشمیر کے ایک بڑے حصے میں اپنی افواج داخل کرکے کشمیر کا مسئلہ کھڑا کیا اور اس خودساختہ مسئلہ کے حل کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا مگر یو این سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی جانب سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کئے جانے کے باوجود بھارت نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ اس کا پیدا کردہ یہی تنازعہ آج تک برقرار ہے جس پر بھارت کی جانب سے پاکستان پر تین جنگیں بھی مسلط کی جاچکی ہیں اور سقوط ڈھاکہ کی شکل میں اسے دولخت بھی کیا جا چکا ہے جبکہ بھارت اب باقیماندہ پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کے بھی درپے ہے۔ اسی مقصد کیلئے اس نے اپنا جنگی جنون بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور وہ پاکستان کی سالمیت پر کاری وار کرنے کے موقع کی تلاش میں ہے۔ اگر اسکے جنونی عزائم بھانپ کر پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہ کی ہوتی تو بھارت اب تک پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنے مکروہ عزائم پورے کرچکا ہوتا۔ اب اسکی دال نہیں گلتی تو وہ دوسرے ذرائع سے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا بھی اسکے پاکستان دشمن ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس کیلئے وہ اپنے دہشت گرد بھی تیار کرتا ہے اور پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔
اس وقت جبکہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس بھارتی ایجنسی ”را“ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کے ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہیں جو بھارتی اور افغان حکام کو پیش بھی کئے جا چکے ہیں اور بڈھ بیر پشاور کی دہشت گردی کے حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے بھی باور کرایا ہے کہ پشاور حملے کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ انکے بقول اگر افغانستان کے ساتھ دوستی کا خیال نہ ہو تو ہم پاکستان کی سرحد سے افغانستان کے اندرخود بھی اپریشن کرسکتے ہیں تو اس تناظر میں پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی بھارتی سازش میں افغانستان کے شریک ہونے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی اس لئے افغانستان کے ساتھ دوستی کا تب احساس کیا جائے جب وہ بھی ہمارے ساتھ دوستی کی پاسداری کررہا ہو اور طے شدہ معاہدوں کے مطابق دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی راہ پر آرہا ہو۔ اگر کابل حکومت ہمارے ساتھ بھارتی لب و لہجہ میں ہی بات کررہی ہے اور اسکی سرزمین سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر یہاں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں مصروف ہیں تو اسکے ساتھ دوستی کا تذکرہ چہ معنی دارد۔ اگر امریکہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے نام پر ہزاروں میل دور سے آکر ہمارے خطہ کو دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اپریشن کرکے ادھیڑ سکتا ہے تو ہمیں افغانستان میں دہشت گردوں کے ان ٹھکانوں پر کارروائی کا کیوں حق حاصل نہیں جو بھارتی ایجنڈے کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ سخت لہجے میں دوٹوک بات کی جائے اور جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف اپنی تقریر میں پاکستان کی سالمیت کیخلاف ہونیوالے بھارت افغان گٹھ جوڑ کو بے نقاب کریں اور عالمی قیادتوں سے انکے جنونی ہاتھ روکنے کا تقاضا کریں۔ پاکستان بھارت تنازعات میں بلاشبہ کشمیر ہی فلیش پوائنٹ ہے۔ اب شنید ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی خود 25 ستمبر کو یو این جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے جو کشمیر پر بات کا راستہ روکنے کیلئے پاکستان کو دہشت گردی کا مورد الزام ٹھہرائیں گے اس لئے وزیراعظم نوازشریف کو اب ”اوفا“ مشترکہ اعلامیہ جیسی حکمت عملی اختیار نہیں کرنی چاہیے اور اپنی تقریر میں عالمی قیادتوں سے یو این قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانے کا دوٹوک تقاضا کرنا چاہیے۔ اگر بھارت ہماری سالمیت کمزور کرنے کی خاطر کشمیر ہڑپ کرنا چاہتا ہے تو ہماری شہ رگ کشمیر ہماری بقاءکی بھی ضمانت ہے۔ اپنی بقاءو سلامتی پر بھلا دشمن کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کی جا سکتی ہے؟