حکومت کے مہنگائی میں ریلیف دینے کے دعوے اور حکومتی اتحادیوں کے بھی تحفظات
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف بلاامتیاز کریک ڈائون جاری رہے گا۔ گزشتہ روز لاہور میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات اور انتظامی امور سے متعلق اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے مہنگائی کنٹرول کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے متعلقہ حکام کو ضروری ہدایات دیں۔ انہیں اجلاسوں کے دوران مہنگائی‘ امن و امان کی صورتحال اور جاری ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مختلف پروگراموں کے ذریعے کمزورو طبقات کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کی فراہمی یقینی بنا رہی ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ضلع اور تحصیل کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کی گئی ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں جاری تمام ترقیاتی منصوبے مقررہ وقت کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے‘ قانون کی بالادستی یقینی بنانے کیلئے حکومت تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے غریب و پسماندہ عوام آج سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر ہیں جس میں روزافزوں اضافہ کے باعث ان کیلئے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ وہ مہنگائی کے سونامیوں کی بھی زد میں ہیں اور بے روزگاری کا عفریت بھی انکے غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ چنانچہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے گھمبیر مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ احتساب کے شکنجے میں جکڑی اپوزیشن کو تو حکومت مخالف تحریک کیلئے عوام کے اضطراب پر مبنی جذبات کی ہی ضرورت تھی چنانچہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم اور دوسری اپوزیشن جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور جماعت اسلامی نے موقع غنیمت جان کر اپنے اپنے پلیٹ فارم پر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ناروا اضافہ کیا گیا تو پی ڈی ایم نے راولپنڈی میں اپنا اجلاس منعقد کرکے حکومت کیخلاف ملک گیر تحریک چلانے کا شیڈول طے کرلیا جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں پی ڈی ایم کے قائدین کی قیادت میں جلسوں‘ جلوسوں‘ احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جبکہ پی ڈی ایم قائدین اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا بھی عندیہ دے چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کے بقول حکومت کو وقت دینا ملک کو مزید تباہی کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے گزشتہ روز لاہور‘ اسلام آباد‘ گوجرانوالہ‘ شیخوپورہ‘ قصور‘ حافظ آباد اور ملک کے دوسرے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور مظاہرین نے اپنے گلے میں روٹیاں لٹکا کر مہنگائی کیخلاف دہائی دی۔ اسی طرح سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی نے کراچی اور جماعت اسلامی نے پشاور اور گلگت میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کئے۔ کراچی کے احتجاجی مظاہرے کی قیادت وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے کی جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جن کے بقول ناقص حکومتی پالیسیوں سے عام آدمی پس گیا ہے۔ پشاور کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنیوالے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ظالم حکومت کے جانے سے ہی عوام کو ریلیف ملے گا۔ اس تناظر میں پی ڈی ایم اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کا زور پکڑنا بعید ازقیاس نہیں جبکہ اس وقت بعض حکومتی اتحادی بھی مہنگائی اور بے روزگاری کا باعث بننے والی حکومتی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے رہنماء خالد مقبول صدیقی اور مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا بھی حکومتی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آئے جو بجلی‘ پانی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جانے سے متعلق حکومتی اقدامات کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونا بھی حکومتی گورننس میں موجود خامیوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور گورننس کا معاملہ ایسا بنا ہوا ہے کہ وزیراعظم مصنوعی مہنگائی مسلط کرنیوالے ذخیرہ اندوزوں‘ منافع خوروں اور دوسرے مافیاز کیخلاف آئے روز سخت کارروائی کا عندیہ دیتے ہیں مگر ان مافیاز کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو رہے ہیں۔ اس طرح حکومتی رٹ کی کمزوری بھی اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے چند روز قبل عوام کے مختلف طبقات کیلئے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا جبکہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین نے بھی آٹا‘ چینی‘ گھی اور دال پر عوام کو بڑا ریلیف ملنے کا عندیہ دیا اور پنجاب میں ہر خاندان کو صحت کارڈ ملنے کی خوشخبری سنائی۔ اسکے برعکس عوام مہنگائی کے عفریت کے آگے مکمل بے بس ہو چکے ہیں جبکہ بے لگام ہونیوالی مہنگائی کی وفاقی ادارہ شماریات بھی تصدیق کر رہا ہے جس کی جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی مزید ایک عشاریہ 38 فیصد بڑھی ہے اور 29 مختلف اشیاء مہنگی ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے سب سے کم آمدن والے طبقہ کیلئے مہنگائی کی شرح 15 عشاریہ 72 فیصد پر پہنچ گئی اور ایل پی جی و پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ گھی‘ چینی‘ آلو‘ انڈے‘ دودھ‘ دہی کے نرخ بھی بڑھے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ عوام کو درپیش غربت‘ مہنگائی کے ان گھمبیر مسائل پر حکمران طبقات انہیں طفل تسلی دیتے بھی نظر نہیں آتے اور ملک سے باہر بیٹھ کر وفاقی مشیر خزانہ شوکت ترین راندۂ درگاہ عوام پر مہنگائی مزید بڑھنے کا تازیانہ برسا رہے ہیں اور گورنر سٹیٹ بنک پٹرولیم نرخوں کا دوسرے ممالک کے نرخوں سے موازنہ کرتے ہوئے مہنگائی کے مارے ہوئے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک پاشی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ اب بھی بہت کم ہیں۔ اس طرح انہوں نے نرخ مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے جبکہ عوام یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ گورنر سٹیٹ بنک کو جن ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ زیادہ نظر آتے ہیں‘ انہیں وہاں کے عوام کی پرکشش تنخواہیں اور حکومتوں کی جانب سے ملنے والی دوسری مراعات کیوں نظر نہیں آتیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حکمران طبقات کا ایسا طرز عمل عوام میں مزید غم و غصہ کی کیفیت پیدا کرتا ہے جبکہ روزافزوں مہنگائی کا اصل باعث پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں شتربے مہار اضافہ ہے جس کے باعث روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء کے نرخ اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اب عوام ریلیف کے حکومتی دعوئوں اور محض اعلانات سے ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کو سابق حکمرانوں کے مسلط کردہ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل سے نجات کیلئے ہی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا تھا۔ اگر آج پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے ہیں تو حکمرانوں کو عوام کے ممکنہ ردعمل کا بھی اندازہ لگا لینا چاہیے جس کے عملی مظاہرے کا اپوزیشن کی تحریک کی شکل میں آغاز بھی ہو چکا ہے۔