سانحہ کار ساز، تیرہ برس کے بعد بھی انصاف نہیں ملا
جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور ملک کا نظام غیر منتخب لوگوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی تھی جسے دیکھتے ہوئے طویل جلاوطنی کے بعد سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ خبر سن کر حکو مت اور سیاست میں مفادتی گروہ پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا اور انہوں نے محترمہ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی۔ مگر جرأت کی داستانیں رقم کر نے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی نے، جسے جرأت مندی ورثے میں ملی تھی، ان رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کا اعلان کردیا۔اس پر حکو متوں میں بیٹھے لوگوں نے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردیئے جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی قائد کے استقبال کیلیے زور شور سے تیاریاں شروع کردیں۔ چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تھا، لہذا کارکنان نے پورے شہر کو دلہن کی طرح سجادیا۔ شہر بھر کی عمارتوں پر رنگ برنگے برقی قمقمے جگمگانے لگے جبکہ تمام سڑکوں، شاہراہوں، گلی کو چوں میں پیپلز پارٹی کے سہ رنگے پر چم لہرانے لگے۔ شہر میں جابجا بڑے بڑے ہورڈنگز نصب کردیئے گئے جن پر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر نمایاں تھیں۔
ان کی آمد سے قبل ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پورے ملک سے عوام ان کے استقبال کیلئے کراچی آ گئے ہیں۔ جس دن جلا وطن قائد نے پاک سرزمین پر قدم رکھنا تھا اس دن پورے شہر میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگادیئے گئے جہاں لگے ساؤنڈ سسٹم سے پیپلز پارٹی کا نغمہ ’’بجاں تیر بجاں…‘‘ کی آواز سنائی دے رہی تھی اور کارکنان، جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، ان نغمات پر والہانہ رقص کررہے تھے جبکہ استقبا ل کیلیے ایئرپورٹ جانے والی ہزاروں گاڑیوں پر سوار کارکنان ’’جئے بھٹو، جئے بینظیر‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ اس طرح یہ کارکنان ایئرپورٹ پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ اپنی قائد کا انتظار کرنے لگے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے طیارے نے ٹھیک ساڑھے تین بجے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور غیر ملکی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس موقعے پر قومی پرچم سے مشابہ سبز شلوار قمیص اور سفید دوپٹے میں ملبوس تھیں۔ وہ جیسے ہی اپنی ہمشیرہ صنم بھٹو اور دوسرے رہنماؤں کے ساتھ قرآن کے سائے میں باہر آئیں تو چا روں طرف ’’وزیراعظم بینظیر‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ انہوں نے وطن کی مٹی پر قدم رکھتے ہی نہ صرف شکرانے کا سجدہ ادا کیا بلکہ دعا بھی مانگی اور پھر انہیں اس موقعے کے لیے بنائے گئے خصوصی بلٹ پروف فلوٹ پر سوار کرا دیا گیا، جس کے چاروں طرف ان کی تصاویر کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نعرے درج تھے۔ اس طرح یہ قافلہ انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھنے لگا۔
بی بی کے آنے پر جیالے بے حد خوش تھے۔ بینظیر بھٹو کا قافلہ ایئر پورٹ سے براستہ کارساز گزر رہا تھا۔ جب پہلا دھماکہ ہوا مگر لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ اپنوں کے قریب آئے، یہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ دھماکوں کے بعد ہر کارکن کے لبوں پر حیرت انگیز طور پر یہی سوال تھا، "بی بی سلامت ہیں؟ انہیں کچھ ہوا تو نہیں؟" دراصل وہ جانثاران بے نظیر تھے جو 3 مختلف صفوں میں بی بی کو حصار میں لیے کھڑے تھے۔ سانحے کے بعد کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہوپائی، انکے اعضا کو سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کارکنوں کے ساتھ لاڑکانہ میں دفنا یا ، وہ سب شہید بھٹو تھے‘۔ ‘بی بی کو پاکستان آنے سے منع کیا گیا تھا، بتایا تھا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، وہ نہیں مانیں۔ وہ لوٹ آئیں‘۔’ بلکہ بی بی کے واپس آنے پر بھی انہیں کئی بار کہا گیا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، آپ واپس چلی جائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ " میرا سب کچھ میرے وطن کے لوگ ہیں میرا مرنا جینا ان کے ساتھ ہے۔ 8 1 اکتوبر کاوہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک منحوس ترین اور دل دہلا دینے ولا دن تھا جس دن کراچی میں اپنی قائد کے استقبال کے لئے آئے کارکنوں کے جلوس میں ظالموں نے دھماکے کئے اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور کئی شہید ہوئے، کراچی میں ہونیوالے سانحہ کارساز کو آج تیرہ برس گزرچکے ہیں جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ کارساز کے سانحے میں دو دھماکوں سے 150 سے زائد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ کارکنان پیپلزپارٹی اپنی قائد کی کراچی آمد پر اور ایک جھلک دیکھنے کے لئے خوشیاں منارہے تھے جب اْن کی یہ خوشی ماتم میں بدل گئی تھی۔ پہلے دھماکے کی آواز اور اس کی ہولناکی کبھی نہیں بھلائی جاسکتی ۔کراچی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے پارٹی کے جیالوں سمیت شہیدہونے والے افراد کی یاد میں کارساز روڈ پر دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور مرنے والوں کے ایصال ثواب کے لئے دعائیں کی اور شمعیں روشن کی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ سانحہ کارساز پی پی پی کی جماعت کے لئے ایک بہت بڑی سازش تھی، جِس میں اندرونی اور بیرونی دونوں ہاتھ ملوث تھے۔ سانحے کے شہدا کو کبھی نہیں بھلایاجاسکتا۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں نے اپنی قائد بینظیر بھٹو کے لئے تاریخی قربانی دی تھی۔ سانحہ کارساز کے تیرہ برس مکمل ہونے کے بعد بھی اس سانحے میں ملوث افراد کو بے نقاب نہیں کیا جاسکا، سانحے میں شہید ہونے والے افراد کے خاندان آج بھی انصاف ملنے کے منتظر ہیں۔
قربان جائیں پیپلز پارٹی کی اس قائد پر جو اتنی بڑی دہشت گردی سے بچ جانے اور دہشت گردی کے منڈلاتے خطرات کے باوجود خاموش نہیں بیٹھیں بلکہ انہوں نے دھماکے کے دوسرے دن ہی اسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت کی، شہید ہونے والے کارکنان کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتی رہیں اور ان ہی حالات میں اس حوصلہ مند قائد نے میڈیا سے بھی اپنا رابطہ بر قرار رکھا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو تفصیلات سے آگاہ کرتی رہیں۔ ان کی اس جراتمندی پر نہ صرف ملک اور قوم نازاں ہیں بلکہ بین الااقوامی رہنماؤں بشمول سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون، صدر فرانس نیکولس سرکوزی، برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ و دیگر نے انہیں ایک جرأتمند خاتون اور باحوصلہ لیڈر قرار دیا۔ آج اگر دنیا میں کسی پاکستانی لیڈر کا نام عزت احترام اور جرات مندی کے طور پر لیا جاتا ہے تو محترمہ شہید کا نام ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو سمیت دیگر قیادت بھی سانحہ کارساز میں متاثر ہو نے والے خاندانوں کو اب تک نہیں بھو لی، ان کی یاد میں اسی مقام جہاں پر یہ دھما کہ ہوا تھا، ایک ’’یاد گار شہدائ‘‘ قائم کی گئی ہے جہاں ہر سال 18 اکتوبر کو دِیئے جلاکر ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سوال ہمیشہ انصاف کے ایوانوں میں گونجتا رہے گاکہ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا دیگر سیاسی لیڈروں سے لے کر بے نظیر بھٹو کا قتل، واقعات کی تحقیقات میں کیوںکوئی پیش رفت ہوسکی اور نہ انہیں انصاف مل سکا؟