حکومتی رٹ کا ریٹ
کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف جس پولیس نے کارروائی کرنی ہوتی ہے اس کا اپنا حال یہ ہے کہ کئی سال قبل راجن پور سے اغوا ہونے والے ڈی ایس پی اور انسپکٹر کو تاوان دے کر ڈاکؤں سے چھڑایا گیا اور یہ افسوسناک واقعہ میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ میں پیش آیا۔ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے تمام تھانوں سے تاوان کیلئے رقم جمع کی گئی اور اپنے بندے چھڑائے گئے۔اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ رحیم یار خان میں تعینات ایک سابق ضلعی پولیس سربراہ دریائی علاقے میں عین ان دنوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کراتا تھا جب گندم کی کٹائی شروع ہوتی تھی لوگ بھاگ جاتے اور ان کی گندم بحق پولیس ضبط کر لی جاتی پھر ان کے پاس ڈکیتی کے علاوہ کوئی ’’ روزگار‘‘ باقی نہ رہتا ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ کچے کے دریائی علاقے میں ہر سال پولیس حکام ہزاروں من گندم تھریشر اور ہارویسٹر لگا کر کٹواتی ہے مگر ریکارڈ میں اس کا پانچ فیصد بھی جمع نہیں کرایا جاتا ۔ انگریز دور میں بنایا جانے والا کسی بھی اشتہاری کی جائیداد کی ضبطگی کا قانون آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں لاگو ہے اور یہ کالا قانون اسلامی تعلیمات سے متصادم ہونے کے باوجودلاگو ہے۔نہ تواس پر کبھی اسلامی نظریاتی کونسل نے غور کیا اور نہ ہی اس پر اسمبلی میں بات ہوئی ۔جائیداد کی ضبطی کا یہ قانون جتنا پولیس والوں کیلئے سود مند ہے اس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔سارا قرقی کا مال بندر بانٹ کی نذر ہوجاتا ہے اور 95 فیصد اس طرح کے معاملات میں جس کسی ایک دو اشتہاریوں کو پکڑنا مقصود ہوتا ہے تو وہ کسی جائیداد کا مالک بھی نہیں ہوتالہٰذا عذاب و افتاد اس کے والدین اور عزیزواقارب پر آجاتی ہے۔
میں نے اس طرح کے درجنوں کیسز دیکھے ہیں۔ گزشتہ سال شجاع آباد کے علاقے میں ایک سابق اے ایس پی نے اس قسم کے ایک معاملے میں ایک اشتہاری کے والد اور گھر سے سارا سامان ٹریکٹر ، گندم کی فصل حتیٰ کہ تیس ماہ بعد آم کی فصل بھی اتروا لی تھی ۔جنوبی پنجاب میں یہ کلچر عام ہے ۔رحیم یار خان اور راجن پور پولیس کی کارروائیوں کا ریکارڈ چیک کرالیں تو سب عیاں ہوجائے گا کہ تمام تر آپریشن گندم کی کٹائی کے دنوں میں کیوں کیے جاتے رہے ہیں ۔ کیا حکومتی رٹ یہی ہے کہ کسی ایک ملزم کے تمام تر خاندان پر عتاب نازل کردیا جائے ۔ یہ وہ ایزی پیسہ ہے جس کی جنوبی پنجاب میں کھلے عام پریکٹس جاری ہے ۔اور پولیس کو جتنا مال ایزی پیسے کے ذریعے جارہا ہے کسی اور ذریعے سے نہیں جاتا ۔جس موبائل نمبر پر رقم بھیجی جاتی ہے وہ عموماً عورتوں کے نام ہوتے ہیں اور ان کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوتا ۔
صادق آباد کے علاقے جھوک ماہی میں دو ہفتے قبل خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں 9افراد کو سر عام قتل کردیا گیا اور پھر قاتلوں کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ انہوں نے ویڈیو پیغام کے ذریعے مزید قتل کرنے کی دھمکی بھی دے دی ۔سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کو زیب دیتا تھا کہ بندے مار کر اسی پٹرول پمپ پر آکر جشن منائیں اور پھولوں کے ہاروں سے لادے جائیں۔ پھر جس پٹرول پمپ پر جشن منایا گیا اسی پر 9 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ۔ جو پولیس حوالدار ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا کیاوہ دو طرفہ مخبری نہیں کیا کرتا تھا۔کیا پولیس یونیفارم پہنے ہوئے ایک ڈی ایس پی نے انہی ڈاکوؤں سے مذاکرات کرکے انہیں Safe way نہیں دیا تھا کہ وہ آسانی سے مذاکرات کے بعد واپس چلے گئے ۔
سچ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے دریائی اور قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ کے ریٹ مقررہیں معاملات طے نہ ہوں تو حکومتی رٹ چیلنج ہوجاتی ہے اور طے ہوجائیں تو افہام و تفہیم سے حکومتی رٹ کا نفاذ ہوجاتا ہے۔جنوبی پنجاب میں اتنے ڈاکونہیں ہیں جتنے سہولت کار موجود ہیں اور پولیس انہی سہولت کاروں کے ذریعے مذاکرات کرتی ہے ۔وہی ڈاکوؤں کو پیش کراتے ہیں اور وہی انہیں تحفظ فراہم کرکے ان سے ہر طرح کاکام لیتے ہیں۔
کسی اور کی کیا بات کریں میں نے از خود 22 سال قبل علی پور سے کشمور مال لیکر جانے والا ایک منی ٹرک کا ڈرائیور ایک ایم این اے کی مداخلت سے بغیر تاوان ڈیرہ بگٹی سے بازیاب کرایا تھا ۔ڈاکوؤں نے ڈرائیور کو باندھ کر کنڈیکٹر کے ذریعے 5 لاکھ تاوان کی پرچی بھجوا دی تب بغیر تاوان مغویان کی رہائی کا تصور بھی نہیں تھا مگر ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے کشمور سے ایک بلوچ رکن قومی اسمبلی کو اس معاملے میں معاونت کیلئے کہا اور مذکورہ مغوی بغیر تاوان رہا ہوکر آگیا ۔
یہ تو معاملات تھے جنوبی پنجاب کے ، اب چلتے ہیں لاہور کی طرف جہاں اعلیٰ پولیس حکام کی ناک کے عین نیچے بدامنی کا وہ دور دورہ ہے کہ اس کی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔چند روز قبل میں اسلام پور کرشن نگر میں چند پرانے دوستوں سے ملنے گیا ۔ کسی زمانے میں ساندہ، سنت نگر اور کرشن نگر کے علاقے امن و امان کے گڑھ تھے۔لوگ رات گئے تک ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے رہتے تھے اور پسندیدہ کھانوں کی یہاں بہت سی دکانیں تھیں ۔میرے پہنچنے سے چند منٹ قبل دو لڑکے آتے ہیں اور گن پوائنٹ پر موبائل چھین کر چلے جاتے ہیں ۔ میرے لئے یہ بہت حیرت ناک بات تھی کیونکہ میں اس علاقے کے امن و امان کا گواہ ہوں ۔دوستوں کی زبانی علم ہوا کہ یہاں کوئی ڈی ایس پی( جس کا سیدھا سا نام تھا مگر یاد نہیں رہا ) جب سے تعینات ہوئے ہیں جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروش کھل کھیل رہے ہیں۔ وہاں جتنے بھی لوگ موجود تھے ہرکسی کے پاس کوئی نہ کوئی داستان تھی جو لاقانونیت پرآکر ختم ہوتی تھی ۔لوگ تو باآسانی تھانے آنے جانے والے منشیات فروشوںکے کھلے عام نام لے رہے تھے اور ایک شخص کے موبائل میں چند تصاویر اس علاقے کے منشیات فروش کی تھیں جو کسی تقریب میں اس علاقے کے پولیس افسران کے درمیان بیٹھا تھا۔جنوبی پنجاب کے علاقے لودھراں سے تعلق رکھنے والے آئی جی پنجاب اس قصے کو تو چھوڑیں ۔ کم از کم لاہور میں ہی اپنی رٹ قائم کرلیں جنوبی پنجاب میںخود بخود ہوجائے گی۔(ختم شُد)