آرٹیکل 370 کے بعد کا کشمیر
آرٹیکل 370 کشمیر میں غیر فعال کرنے کے دو سال بعد کیصورت حال تشویش ناک ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں گذشتہ کئی ہفتوں سے بھارتی فوج اور کشمیریوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد یا لائن آف کنٹرول پر مینڈھر کے جنگلات میں جاری اس طویل جھڑپ میں اب تک بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس کے دو افسران سمیت نو فوجی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ پونچھ میں جاری جھڑپ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کے بعد یہاں ہونے والی سب سے طویل اور بھارتی فوج کے لیے ہلاکت خیز جھڑپ ثابت ہوئی ہے۔ ہزاروں فوجیوں، درجنوں کمانڈوز، کئی ہیلی کاپٹروں اور ڈرونز کو استعمال میں لانے کے باوجود بھارتی دہشت گرد فوج اب تک کسی بھی کشمیری کو شہید کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئی۔ پونچھ ڈسٹرکٹ کے مختلف علاقوں میں بھارتی فوج کے 20 کے قریب اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ جموں و کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات سے یہ واضح ہے کہ مودی سرکار حکومت کے پاس کشمیر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں تشدد کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں سکون و سلامتی فراہم کرنے میں مودی سرکار حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ۔ قتل کے مسلسل واقعات افسوسناک ہیں۔ جموں و کشمیر کے حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں، کشمیر اور کشمیریت دونوں خطرے میں ہیں۔جس کی اصل وجہ اگست 2019 میں بھارت کی حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر دی تھی اور اسے جموں کشمیر اور لداخ ٹریٹریز میں بدل تقسیم کر کے براہ راست دہلی کے تحت کر دیا تھا۔اورمقبوضہ جموںوکشمیر میں اب کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ یہاں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے بلکہ براہ راست نئی دہلی کی قابض حکومت ہے۔ براہ راست قاعدہ ان قوانین کے استعمال جو کشمیر کے لیے مخصوص ہیں ، جیسے پبلک سیفٹی ایکٹ اس قانون کے تحت فرد کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں کشمیر میں زمین خریدنے والوں کی کل تعداد صرف دو ہے ، آرٹیکل 35 کو ہٹانا ، جو کشمیر کے مستقل باشندوں کی وضاحت کرتا ہے ۔جب کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔کشمیری پنڈت وادی میں واپس نہیں آئے۔ کیوں ایک شہری اور تعلیم یافتہ کمیونٹی ایسی جگہوں پر واپس نہیں جانا چاہتی ہے جہاں کچھ نوکریاں ہوں اور اکثر انٹرنیٹ سروس نہ ہو۔یہاں تک کہ لداخ کی حیثیت میں تبدیلی اور یونین ٹریٹری کے نئے نقشوں کا اجراء وہاں چین کی جارحیت کا قریب ترین سبب معلوم ہوتا ہے۔بھارت کی مودی حکومت کی کشمیر میں دہشت گردی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ سالانہ شہادتوں میں دو گناہ اضافہ ہوا ہے یعنی شرع اموات 150 سے بڑھ کر 250 ہوگئی ہے۔جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں پچھلے دو سالوں سے کوئی ترقی نہیں ہوئی۔اس370 اور 35 آرٹیکل کے اقدام نے مسئلہ کشمیر میں عالمی دلچسپی کو دوبارہ متحرک کیا۔دیگر عالمی ادارے ، بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق ایسے امریکی کمیشن نے بھی بھارت پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے کہ 2019 کے بعد کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔لداخ میں چین کی مداخلت کے بعد بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانا چھوڑ دے اور بھارت آجکل پاک بھارت سرحدوں کی خلاف ورزی میں بھی کمی کر کے پورے دھیان سے چین سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اور مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر وقتی طور پر سرحدوں پر جنگ بندی کا خواہاں ہے۔ جبکہ پاکستان تو شروع سے ہی امن کے لیے کوششیں کر رہا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے بغیر یہ ممکن بھی نہیں ۔۔ اور بھارت کی کشمیر میں 370 اور 35 آرٹیکل ہٹانے کی اصل وجہ ہی پاکستان ہے۔مگر اب بھارت حل کے لیے پاکستان کا رخ کر رہا ہے کیونکہ بظاہر اصل مسئلہ چین ہے۔
دنیا کو سوچنا ہوگا کہ کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سیتعلقات کی بہتری یا سمجھوتہ ممکن ہے ۔ اور چین بھی پاکستان کا دوست ہے۔ اور بھارت وہ ازلی دشمن جو آئے دن سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا ۔ اب اچانک سے سکون کی خواہش کرنے لگا۔عوام کو سوچنا ہوگا کہ بھارت نے 2019 میں پاکستان دشمنی میں جو کارروائی کی اس سے پورے خطے اور کشمیری عوام کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا ہے۔خیر مودی سرکار نے کشمیر کی خود مختاری پر ضرب لگا کر بھارت میں آزادی کی چنگاریاں بڑھکا دی ہیں۔ بھارت میں خود مختاری کی تحریکیں اروناچل پردیش، آسام، بوڈالینڈ، کھپلنگ میگھا لیا، میزو رام، ناگا لینڈ، تیرہ پورہ، بندیل کھنڈ، گورکھا لینڈ، جھاڑ کھنڈ،تامل ناڈو، میزو لینڈ،خالصتان،ہماچل پردیش اور کشمیر میں تو آزادی کی تحریکیں اس حد تک توانا اور قوی ہو چکی ہیں کہ وہ مقبوضہ علاقوں سے بھارتی افواج کے انخلائ کیلئے فدائی حملوں کے ہتھیار کو بھی استعمال کر رہی ہیں۔ نریندر مودی سرکار نے راکھ کے نیچے سلگنے والی چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کر دینے کی کوشش کی ہے اور ان کی سرکار ابھی تک اس کام پر لگی ہوئی ہے۔نریندر مودی سرکار داخلی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہے ہیں۔ بھارت میں صرف چہرے بدلے ہیں، نظام نہیں بدلا۔ محض چہروں کی تبدیلی سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آ سکتی۔جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیاچاہیے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی 76 ویں جنرل اسمبلی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے حق میں بھرپور آواز اٹھا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ نہ تو پاکستان مظلوم کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو اس مسئلے کے حل ہونے تک چین سے بیٹھنے دے گا۔ اس حوالے سے کئی دوست ممالک پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ 5 اگست 2019ئ کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو کالعدم قرار دے کر اپنے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی حیثیت ختم ہی اس لیے کی کیونکہ اسے اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان اس مسئلے کو چاہے جتنا اجاگر کرلے، بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں محض کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرے گی اور اب تک ہوا بھی ایسا ہی ہے۔مگر اب مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ ظاہری بات ہے کشمیر اقوام متحدہ کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے اور متنازعہ جگہ کو کوئی بھی ملک جعلی قرار داد کے ذریعے اپنا حصہ نہیں بنا سکتا۔ بھارتی انتہا پسند قیادت نے اپنی بیمار ذہنیت کا ایک بار پھر کھل کر اظہار کیا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ موجودہ بھارتی قیادت نہ صرف مسائل کو حل کرنے کی سکت نہیں رکھتی بلکہ امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچانے اور خطے کو جوہری جنگ کی آگ میں دکھیلنے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارتی آئین میں علاقائی نوکریوں، زمینوں و کلچر ثقافت کو محفوظ بنانے کی پوری گنجائش موجود ہے۔ بھارت کی دیگر کئی ریاستوں کو ایسے آئینی تحفظ حاصل ہیں اور 370 میں بھی یہی بات تھی۔ آزادی کشمیریوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر دنیاآج بھی جاگ کر متحد ہو کر مظلوم ومعصوم کشمیریوں کا ساتھ دے اور مودی کو کشمیر کی آزادی کے لیے پابند کرے۔تو یہ مشکل ضرور ہوگا مگر ناممکن نہیں آزادی سب کا حق ہے اور اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔