ہفتہ ‘ 6 ؍ ربیع الاول 1442ھ‘ 24؍اکتوبر 2020ء
اورنج ٹرین کل سے چلے گی، 200 ڈرائیور چین سے آ گئے
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ کیا اب ٹرانسپورٹ یا ٹرین چلانے کے لیے ڈرائیور بھی چین سے منگوانے پڑیں گے۔ یہ قحط الرجال کب سے پڑنا شروع ہو گیا۔ خدا جانتا ہے ہمارے ٹرک ڈرائیور، رکشہ ڈرائیور، چنگ چی کے ڈرائیور ان چینی اعلیٰ تربیت یافتہ ڈرائیوروں سے کروڑ درجہ بہتر ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ان نئے آنے والے ڈرائیوروں کا ہمارے ڈرائیوروں کے ساتھ مقابلہ کرا کے دیکھ لیں۔ یہ مقابلہ حسن ڈرائیونگ اگر ہم جیت نہ جائیں تو پھر کہنا۔ مہارت میں رفتار میں ہمارے موٹر سائیکل چلانے والے بھی ان چینی ڈرائیوروں کو مات دے سکتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ یہ بھی ہمارا اعزاز ہے کہ ہمارے 80 فیصد ڈرائیوروںکے پاس لائسنس بھی نہیں ہے۔ پھر بھی ان کی مہارت بے مثال ہے۔ اکثریت نشہ بھی کرتی ہے۔ خاص طور پر چرس کا مگر کیا مجال ہے جو ڈرائیونگ میں فرق آئے۔ یہ علیحدہ موضوع ہے کہ حادثات کی شرح انہی باتوں کی وجہ سے ہمارے ہاں کچھ زیادہ ہی ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس پر زیادہ تشویش نہیں کی جاتی۔ اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے۔ ڈرائیوروں کی تربیت کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ بھلا ایک محفوظ روٹ پر چینی ڈرائیوروں کی ہمیں کیا ضرورت ۔ یہ کام تو ا یک عام بس کنڈیکٹر بھی بآسانی کر سکتا ہے۔ کیا ضروری ہے کہ ٹرین اگر میڈ ان چائنا ہے تو ڈرائیور بھی میڈ ان چائنا ہی ہو…
٭٭٭٭٭
بھارت کی 1200 مربع کلومیٹر زمین چین لے چکا ہے۔ راہول گاندھی
تو اب مودی سرکار کیا کرے۔ کیا چین پر ٹوٹ پڑے اور جوابی طور پر خود اپنے ٹکڑے کروا لے۔ ویسے بھی یہ ساری آگ خود کانگریس کی لگائی ہوئی ہے۔ کانگریس کے نہرو تقسیم کے موقع پر سرحدی معاملات میں گڑ بڑ کراتے نہ یہ تنازعے جنم لیتے۔ اب مودی حکومت کو تو وہی کاٹنا پڑتا ہے جو راہول گاندھی کے پرنانا بو کر گئے تھے۔ چین سے پاکستان سے نیپال سے بھوٹان سے، کس کس سے بھارت نے پنگا نہیں لیا۔ پہلے کی بات اور تھی اب کی بات اور ہے۔ پہلے مہینوں کسی خبر کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ اب منٹوں سیکنڈوں میں معمولی سا واقعہ بھی دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ بھارت نے جان بوجھ کر بے ایمانی سے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کیا۔ اس ریاست میں لداخ بھی شامل ہے۔ لداخ کی سرحدیں چینی تبت سے ملتی ہیں۔ اس کے ویران برف زاروں پہاڑی چوٹیوں پر بھارت والے نہایت چالاکی سے قابض ہوئے چین نے صبر و تحمل سے حل نکالنے کی کوشش کی جب بھارت نہ مانا تو پھر اسی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے چین نے اپنا کافی علاقہ واگزار کرا لیا۔ اس پر اب راہول گاندھی سے لے کر نریندر مودی تک سیخ پا ہیں۔ اب 1200 کلومیٹر چین واپس لے چکا ہے۔ یہ سچ راہول کی زبان پر تو آ گیا مگر بھارت سرکار عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے اس کو تسلیم نہیں کر رہی۔
سوئس حکومت کا اپنے شہریوں کو فی کس 8300 ڈالر تحفے میں دینے کا اعلان
یہ خبر پڑھ کر تو ہمارے تن بدن میں آگ سی لگ گئی ہے۔ کہاں سوئس حکومت کی یہ بندہ پروری کرم گستری ۔کہاں ہمارے حکمرانوں کی عوام دشمنی اور ظلم پروری۔ ہمارے ملک میں بھی حکومتوں کی طرف سے عوام کو تحفے ملتے ہیں۔ مگر یہ سوئس حکومت کی طرح کے نہیں ہوتے کہ عوام کا سرفخر سے بلند ہو۔ ہمیں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور یوٹیلٹی بلز میں اضافے کے تحفے وقفے وقفے سے ملتے رہتے ہیں۔ جن کے بوجھ نے عوام کے سر ہی نہیں کمر بھی خمیدہ کر دی ہے۔ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کا اظہار تشکر ہے۔ حالانکہ یہ اظہارِ ندامت ہوتا ہیاپنے حسن ِ انتخاب پر۔ سوئس حکومت بخوبی جانتی ہے کہ وہاں کے عوام خوشحال ہیں۔ان کو پیسوں کا کوئی لالچ نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا یہ پیسے سوئس حکومت ہم جیسے غریب غربا کی امداد کے لیے دیتی۔ اس سے بہت سوں کا بھلا ہوتا۔ گرچہ ان بہت سوں میں بااثر افراد انکے رشتہ دار اور دوست زیادہ شامل ہوتے ہیں جو عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی امدادی رقم ہڑپ کر لیتے ہیں اور عوام کی قسمت میں صرف آہیں بھرنا اور رونا ہی رہ جاتا ہے اور مستحق ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں:
صاحب بھوکا ہوں خیرات ہو یا پرشاد سب کچھ کھا لوں گا۔
٭٭٭٭٭
بلوچ طلبہ کا پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا ،کوٹہ اور سکالر شپس بحال کرنے کا مطالبہ
حیرت ہے ایک بلوچ وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ایسا فیصلہ کسی نے کیسے کر دیا۔ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے بلوچ طلبا بھی اس پر حیران ہیں کہ اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا کا کوٹہ ختم کر کے سکالر شپ ختم کر کے ان پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کیوں بند کیے گئے ہیں ، سابقہ حکومت نے بلوچ نوجوان کی تالیف قلوب کے لیے انہیں تنگنائے غزل سے نکل کر محیط بے کراں سے آشنا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ان کے لیے تعلیم کا بندوبست کیا تھا جس سے سینکڑوں بلوچ اور پشتون طلبا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب لگتا ہے تعلیمی فنڈز میں کمی کی وجہ سے یہ ادارے مفت تعلیم کی فراہمی سے ہچکچا رہے ہیں ، جس کی پہل بہائو الدین ذکریا یونیورسٹی نے کر دی ہے۔ اب یہ طلبا ملتان کی سڑکوں سے پیدل مارچ کرتے ہوئے لاہور آ گئے ہیں اور پنجاب اسمبلی کے سامنے براجمان ہیں۔ ان کی بات سننا ضروری ہے ورنہ نفرت کو ہوا دینے والے ایسے واقعات سے ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بے شک ان بینرز پر لگے نعرے تلخ بھی ہیں مگر بچوں کی دلجوئی بھی ضروری ہے۔ انہیں پیار سے سمجھایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں چھپے معدنی خزانے پر سب سے زیادہ ڈاکا وہاں کی حکومتوں نے ان کے اپنے وزیر مشیروں نے نوابوں ، سرداروں اور خانوں نے ڈالا ہے جو ان بچوں کو تعلیم کی سہولتیں تک فراہم ہونے نہیں دے رہے۔ کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے۔